آئی این پی ویلتھ پی کے

ایکسپورٹرز اور ماہرین کی موجودہ مالیاتی بحران کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی برآمدات میں 10فیصد کے قریب کمی کی پیش گوئی

۵ مئی، ۲۰۲۳

ایکسپورٹرز اور ماہرین نے موجودہ مالیاتی بحران کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی برآمدات میں 10 فیصد کے قریب کمی کی پیش گوئی کی ہے۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شاہد ستار نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران برآمدات میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے جو کہ مالی سال کے اختتام تک برآمدات میں تقریبا 10 فیصد کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات گزشتہ سال 31 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں لیکن رواں مالی سال حالات ٹھیک نہیں جا رہے۔اسٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2020-25 کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال 2022-23 کے لیے 37.88 بلین ڈالر کا برآمدی ہدف مقرر کیا ہے۔پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق، 2022-23کے پہلے نو مہینوں کے دوران ملکی برآمدات 21.051 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 23.35 بلین ڈالر تھیںجو کہ 9.85 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔ستار نے کہا کہ پاکستان گزشتہ سال 31 ارب ڈالر کا ہدف حاصل نہیں کر سکا، اس سال 37.88 ارب ڈالر کا ہدف مشکل ہے۔ انہوں نے 2022-23 میں برآمدات تقریبا 27 بلین سے 28 بلین ڈالر تک رہنے کی پیش گوئی کی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ برآمدات کے گرتے ہوئے رجحان کے پیچھے کئی ملکی اور عالمی مسائل ہیں۔انہوں نے کہا پاکستان کا مالیاتی بحران، خاص طور پر زرمبادلہ کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے کاروبار کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ستار نے کہا کہ برآمدی صنعت کاروبار کرنے کی زیادہ لاگت کی وجہ سے دبا وکا شکار ہے اور یہ خطے میں پیداواری لاگت کے حوالے سے بھی نسبتا نقصان کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات کو روکنے والے دیگر عوامل میں گرتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، کرنسی کی قدر میں کمی اور عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے خام مال کی عدم دستیابی شامل ہے۔ستار نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کا ملک کی کل برآمدات کا 60 فیصد حصہ ہے۔ تاہم یہ شعبہ بھی گزشتہ چھٹے ماہ سے برآمدات میں کمی دیکھ رہا تھا۔پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی، صنعت کے لیے انرجی پیکج کی معطلی اور بینکوں کی جانب سے خام مال کی درآمد کے لیے ایل سی نہ کھولنے سے ٹیکسٹائل کی پیداوار اور برآمدات متاثر ہوئیں۔ اگر ہم خام مال درآمد نہیں کرتے ہیں، تو ہم تیار مصنوعات برآمد نہیں کر سکتے ۔سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلوساجد امین نے کہا کہ برآمدات میں کمی غیر معمولی نہیں ہے کیونکہ مختلف ممالک کی معیشتیں وبائی امراض کے بعد بھی جدوجہد کر رہی ہیں۔

امین نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال اور مجموعی برآمدات میں کمی کا رجحان بتاتا ہے کہ پاکستان رواں سال کے دوران برآمدات میں مثبت نمو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔انہوں نے کہابین الاقوامی اقتصادی صورتحال، بنیادی طور پر یوکرین کے بحران کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب کے ساتھ مل کر ملک کی پہلے سے ناکارہ سپلائی چین پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ گھریلو مسائل کے علاوہ امریکہ اور یورپ جیسی بڑی منڈیوں میں کساد بازاری کی وجہ سے طلب میں کمی بھی برآمدات بالخصوص ٹیکسٹائل مصنوعات میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر قابو پانے کے لیے ہم واقعی کچھ نہیں کر سکتے۔امین نے کہا کہ حکومت کی طرف سے مطلوبہ تحفظ حاصل کرنے کے باوجود صنعت اس سطح پر نہیں بڑھ سکی جس کو اب ہونا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ کارخانے ناکارہ مشینیں لگا کر چلائے جا رہے ہیںجو اضافی توانائی خرچ کرتی ہیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی