آئی این پی ویلتھ پی کے

ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان اضلاع میں تین ڈیم بنانے کا منصوبہ

۲۲ دسمبر، ۲۰۲۲

ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان اضلاع میں تین ڈیم بنانے کا منصوبہ،25 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی سیراب ہو گی، ٹانک زم ڈیم، چوڑوان زم ڈیم اور درابن ڈیم سے علاقے میں 'زرعی انقلاب' لانے میں مدد ملے گی۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں تین ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ مناسب آبپاشی کے ذریعے خوراک کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ صوبے کے محکمہ آبپاشی کے ایک اہلکار نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت ٹانک اور ڈیرہ اضلاع کی بنجر زمین کو زرعی زمین میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس سے خوراک کی طلب کو پورا کرنے اور پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 109,721 ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے اور 25.5 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے تین چھوٹے ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا ہے جن میں ٹانک زم ڈیم، چوڑوان زم ڈیم اور درابن ڈیم شامل ہیں۔

قریبی دیہاتوں کو اس سے بجلی بھی فراہم کی جائیگی۔ اہلکار نے کہا کہ ان ڈیموں سے علاقے میں 'زرعی انقلاب' لانے میں مدد ملے گی اور مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ ڈیم خوراک کے عدم تحفظ اور پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ بھی حل کریں گے۔ اس منصوبے سے زمینی پانی کی سطح کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ اہلکار نے کہا کہ ڈیم بنانے کی ایک اور بڑی وجہ مستقبل میں سیلاب سے بچانا ہے۔ سیلاب نے ٹانک میں لاکھوں ایکڑ کھیتی کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے جس سے ضلع میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔محکمہ آبپاشی کے اہلکار نے بتایا کہ آبپاشی کے سات چھوٹے ڈیموں اور آبی ذخائر پر تعمیراتی کام پہلے ہی شروع کر دیا گیا ہے، جو 9 ارب روپے کی تخمینہ لاگت سے مکمل ہوں گے اور 14,135 ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ گومل زام ڈیم کی تعمیر نے ڈیرہ شہر کو سیلاب سے محفوظ کر دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی کی کمی، شہری کاری، سرمایہ کاری کی کمی اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت نے قومی غذائی تحفظ کے لیے ایک چیلنج بنایا ہے۔

ہماری بنجر زمینوں کو زرخیز زمینوں میں تبدیل کر کے زرعی پیداوار کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق پنجاب میں تقریبا 1.46 ملین ہیکٹر اراضی کو قابل کاشت بنجر زمین کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے جومتعدد وجوہات کی بنا پر کاشت نہیں کی جاتی ہے جن میں آبی ذخائر اور نمکیات، بجلی، ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی یا ناکافی سرمایہ جیسے مسائل شامل ہیں۔سروے سے معلوم ہوا ہے کہ کے پی اور پنجاب کے بہت سے علاقوں میں زمین کی پٹی موجود ہے جہاں میٹھے پانی کے آبی ذخائر موجود ہیں۔ ان پٹیوں کو سیراب نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ مقامی کمیونٹیز ان آبی ذخائر کی دستیابی سے آگاہ نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ کارپوریٹ سیکٹر کو آگے آنا چاہیے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قائم کرنی چاہیے۔ حکومت کو آگاہی کو ادارہ جاتی بنانے کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا چاہیے اور زرعی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے پیشہ ورانہ مراکز قائم کرنے چاہییں-

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی