- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
ضلع قصور میں ہیڈ بلوکی میں بانس سے بنا رانا ہنٹنگ اینڈ لگژری ریزورٹ عوامی توجہ کا مرکز بن گیا، روزانہ دو ہزارلوگ 250 روپے دے کر فارم کا دورہ کرتے ہیں، پارک میں 21 بانسوں کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں، تمام پناہ گاہیں، فرنشننگ، بیٹھنے کی جگہیں اور ریستوراں بانس سے بنے ہیں، بانس کی شجرکاری 2006 میں شروع کی گئی تھی۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق بانس کی کاشتکاری ایک منفرد آئیڈیا ہے کیونکہ یہ سماجی و اقتصادی فوائد فراہم کرتا ہے ۔ پنجاب کے ضلع قصور میں ہیڈ بلوکی میں رانا ہنٹنگ اینڈ لگژری ریزورٹ کی مالک اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عائشہ شوکت نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ ان کے والد رانا شوکت محمود بانس کی کاشت کرتے تھے۔ میرے والد نے اس فارم کو آس پاس میں رہنے والے لوگوں کی سماجی اقتصادی ترقی کے لیے ایک ریزورٹ میں تبدیل کر دیا۔میرے خاندان نے مستقبل قریب میں بانس پر مبنی کاٹیج انڈسٹری شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ لوگوںخاص طور پر خواتین کو دستکاری سیکھنے، اور بانس سے کھانے پینے کی اشیا اور دیگر قیمتی اشیا تیار کرنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ریزورٹ اب ایک تفریحی اور سماجی و اقتصادی ترقی کا مرکز بن چکا ہے۔ آر ایچ ایل آر کے فارم مینیجر فرحان محمود نے کہا کہ ان کے بانس کی شجرکاری 2006 میں شروع کی گئی تھی۔
یہ فارم لاکھوں بنگلہ دیشی بانسوں کا ایک وسیع جھنڈ ہے، جو 7,623,000 مربع فٹ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسے ایک زرعی سیاحتی مقام اور بانس کے تحفظ کے علاقے کے طور پر بنایا گیا تھا۔ ہرنوں کی ایک بڑی تعداد اس میں آزادانہ گھومتی ہے۔ یہاں کے تمام پناہ گاہیں، فرنشننگ، بیٹھنے کی جگہیں اور ریستوراں بانس سے بنے ہیں۔ روزانہ تقریبا 2000 لوگ 250 روپے دے کر فارم کا دورہ کرتے ہیں۔ میٹنگ ہالز بھی بنائے گئے ہیں جس میں ایک اچھی طرح سے لیس کانفرنس ہال بھی بنایا گیا ہے۔ بانس کا ایک دلکش مارکی اور کھلی فضا میں ملاقات کی جگہیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ محمود نے کہا کہ پارک میں 21 بانسوں کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں تاکہ سیاحوں کو جنگل کی مہم جوئی کی خوشی ملے۔ انہوں نے کہا کہ بانس کے مختلف ڈھانچے جنگل گالا، پیراڈائز، اور لٹکے ہوئے بستر ماحول میں رہائشی نیا پن پیش کرتے ہیں۔ یہ زرعی سیاحت کے کاروبار کی ایک منفرد اور کامیاب مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہرن کا شکار قانونی تھالیکن انہوں نے کبھی بھی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی۔ ہم یہاں جانوروں کو رکھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اس علاقے میں تقریبا 450 مختلف درآمدی ہرن کی اقسام ہیںجن میں کالے ہرن، دھبے والے ہرن، ہاگ ڈیئرشامل ہیں۔
کچھ دوسرے جانور بھی رکھے جاتے ہیں جن میں نیلی گائے، شتر مرغ، تیتر، یوریل موجود ہیں۔لوگوں کی ایک اچھی تعداد اپنے چھوٹے پیمانے پر کاروبار چلا کر بھی روزی کماتی ہے جن میں ٹک شاپس، کھانے کے اسٹال، جانوروں کی گاڑی چلانا، تفریحی سرگرمیاں، اور بچوں کے لیے جھولنے والے پلیٹ فارم شامل ہیں۔ فارم انتظامیہ ان سے کبھی کوئی فیس نہیں لیتی۔ فردوس جو ایک سووینئر شاپ چلا رہی ہیںنے بتایا کہ وہ چار سال سے اس کاروبار میں ہیں، میں کبھی بھی اپنی آمدنی کا کوئی حصہ یا کرایہ فارم کے انتظام کو ادا نہیں کرتی جس سے مجھے میری دیگر سماجی اور گھریلو ذمہ داریوں جیسے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے اور صحت کے معاملات سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔ محمد سلیم ایک چھوٹی سی ٹک شاپ چلا رہے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کاروبار میں ہیں۔ میں اپنے خاندان کے لیے خوبصورت روزی کما رہا ہوں۔عبدالجبار، جو ٹانگہ چلاتے ہیںنے بتایا کہ وہ 13 سال سے اپنی گھوڑا گاڑی چلا رہے ہیں۔ فارم مینجمنٹ مجھ سے کوئی فیس نہیں لیتی۔ میں نہ صرف اپنا گھر چلانے بلکہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے لیے اچھی آمدنی حاصل کرنے کا انتظام کرتا ہوں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی