- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
گلگت بلتستان میں ہر سال موسم سرما میں 41فیصد لوگ سردی کی شدت کے باعث نقل مکانی کرجاتے ہیں،برفانی علاقوں میں گزارہ ناممکن،شمالی علاقہ جات کی متنوع آب و ہوا مویشیوں کی مختلف اقسام کی پرورش کے لیے موزوں،سردیوں کے موسم میں خواتین کو لیپیڈری کی تربیت دینے اور کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کی ضرورت۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق ضلع سکردو کے معدنیات سے مالا مال شگر سب ڈویژن کے ایک دور افتادہ گاوں چو ٹرون کے رہائشی جو اپنے جیوتھرمل چشموں کے لیے جانا جاتا ہے سردیوں کے موسم میں ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں اورمحفوظ خوراک پر گزارہ کرتے ہیںکیونکہ وہ اپنے گھروں کو آرام دہ اور گرم رکھنے کے لیے مہنگا ایندھن برداشت نہیں کر سکتے۔ ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافی بہادر علی سالک نے چو ٹرون کے رہائشیوں کی اس دکھی حالت کی تصدیق کی اور کہا کہ اس دور افتادہ گاں میں تعلیم اور بیداری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ مقامی لوگ جن حالات میں رہتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں طبقے اہم ہیں۔ ویٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پرویز شاہ نے کہاکہ ایک پائیدار معاش کے لیے مویشیوں کی پرورش سب سے اہم ہے۔
شمالی علاقہ جات کی متنوع آب و ہوا مویشیوں کی مختلف اقسام کی پرورش کے لیے موزوں ہے۔ چونکہ علاقے میں زرعی اراضی قلیل ہے اور مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے، اس لیے نقل مکانی کی شرح زیادہ ہے جو41فیصد ہے۔ لوگوں کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ان کی مدد کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ قدیم گلہ بانی سے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ مویشیوں کی طرف تبدیل ہو جائیں جو موسم اور بیماریوں سے زیادہ مزاحم ہیں۔ کیرائی بھیڑ، آگری بکری ، گبرالی اور اچائی گائے جرسی مویشیوں اور اچائی گائے کی کراس نسل کی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نسلوں کو تیار کرنے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کے انفارمیشن ٹیکنالوجی نیٹ ورک مینیجر سعید حبیب اللہ نے کہاکہ میں خود گلاب پور، شگر سے تعلق رکھتا ہوں، وہاں رہنے والے اتنے غریب ہیں کہ وہ آرام دہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں۔ گرم پانی میں جانے سے پہلے وہ اپنی کھالوں کو جیوتھرمل پانی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے خوبانی کے دانے کا تیل لانولین بھیڑ کی اون سے نکالتے ہیں۔ پولٹری فارمنگ، لیپیڈیری، پھلوں اور بیجوں کی ڈبہ بندی کی سخت ضرورت ہے۔
گلوبل منی کے پرنسپل جیولوجسٹ این جی کمپنی، اسلام آباد، اور پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں ارضیات کے سابق جنرل مینیجر محمد یعقوب شاہ نے کہا کہ وادی شگر میں پیگمیٹک باڈیز کا میدان زمرد، ایکوامیرین، ٹورمالائن اسکورل، گرین فلورائٹ، گارنیٹ سے مالا مال ہے لیکن مقامی لوگ کان کنی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر کان کنی ایک پرخطر کاروبار ہے۔ انہیں کان کنی کی رائلٹی ملتی ہے لیکن آرام دہ زندگی گزارنے کے لیے ادائیگیاں بہت کم ہیں۔ زیادہ تر وہ مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں خواتین کو یہاں لیپیڈری کی تربیت دی جا سکتی ہے تاکہ وہ سردیوں کے موسم میں اپنے کام کو پورا کر سکیں۔ لیتھیم نکالنے سے معاشی سرگرمیاں پیدا ہو سکتی ہیں جس سے روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ماہر جیمولوجسٹ اور کان کن ذاکر اللہ عرف جھولے لال نے کہاکہ شگر میں خواتین کو لیپیڈری کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ جب برف سڑکوں میں دب جاتی ہے اور دیگر معاشی سرگرمیاں رک جاتی ہیں تو وہ اپنے آرڈر مکمل کر سکتے ہیں۔ جے پور انڈیا کی خواتین کی طرح وہ اسے کاٹیج انڈسٹری کے طور پر اپنا سکتی ہیں۔ اس سے ان کی آمدنی کے ذرائع کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔جی بی کے علاقے ہنزہ میں خواتین کی ایک بڑی تعداد لیپڈیری سے وابستہ ہے اور وہ اچھی کمائی کر رہی ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی