- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
حالیہ سیلاب سے قومی غربت کی شرح میں 7 فیصد تک اضافے کا خدشہ،مزید ڈیڑھ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے،80 لاکھ ایکڑ سے زائد فصلیں تباہ،زرعی معیشت کو 320 ارب روپے کا نقصان، منڈیوں میں سبزیوں اور پھلوں کی قلت،متاثرین بے سروسامان۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطا بق مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے آنے والے حالیہ سیلاب نے لوگوں کو انتہائی غربت میں دھکیل دیا۔ سیلاب سے پہلے مالی سال 2021-22 کے لیے پاکستان میں غربت کی سطح کا تخمینہ 39.2 فیصد لگایا گیا تھا اور مالی سال 2022-23 میں اس کے کم ہو کر 37.9 فیصد رہنے کی امید تھی۔ تاہم سیلاب نے غربت کے خاتمے کے بارے میں تمام توقعات کو تبدیل کر دیا۔پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ کے ترجمان نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ مون سون سیلاب ملک بھر میں انتہائی غربت کا باعث بنا اور زیر آب علاقوں میں زیادہ تر متاثرین کسان ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے جائزے کے مطابق سیلاب سے زندگی اور معاش پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمی بینک نے اشارہ دیا کہ قومی غربت کی شرح مزید 4.5 فیصد سے 7 فیصد تک بڑھ سکتی ہے جس سے مزید 9.9 ملین اور 15.4 ملین افراد متاثر ہوں گے۔زرعی شعبے کی تباہی سے غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی کی شرح نمو میں 24 فیصد حصہ ڈالتا ہے جو اسے معیشت کا بنیادی ستون بناتا ہے۔ سیلاب نے چاول، کپاس، دالوں، تیل کے بیجوں اور سبزیوں سمیت 80 لاکھ ایکڑ سے زائد فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا اور معیشت کو 320 ارب روپے سے زائد کا خسارہ پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی پہلے ہی 30 فیصد تک پہنچ گئی ہے، سیلاب نے ملک بھر میں فصلوں کی بھاری مقدار کو تباہ کر دیا ہے جس سے منڈیوں میں سبزیوں اور پھلوں کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ سیلاب سے تقریبا 33 ملین افراد متاثر ہوئے اور 1600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور تقریبا 15 ملین مویشی بہہ گئے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کے پاس اب کچھ نہیں بچا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ اور پسماندہ علاقے تقریبا قابل رہائش ہیں جہاں متاثرہ افراد کو خوراک، رہائش، کپڑے اور یہاں تک کہ پینے کے صاف پانی کی بھی کمی ہے۔پی پی اے ایف کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب سے انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔تقریبا 13,000 کلومیٹر سڑکیں بہہ گئی ہیںجس سے امدادی تنظیموں کے لیے متاثرین تک پہنچنا ناممکن ہو گیا ہے۔ 19000 سے زائد سکول مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں چند سال لگیں گے۔ترجمان نے کہا کہ سیلاب کے انتظامی اقدامات کے بغیر سیلاب زدہ علاقوں کو کاشتکاری اور غیر کاشتکاری دونوں شعبوں میں کم سطح کی سرمایہ کاری حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے بچا وکے منصوبے کے بہتر استعمال کے ذریعے ہم غربت کو کم کر سکتے ہیں اور معیار زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی