- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
زراعت کے شعبے میں صاف اور سبز توانائی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے، حکومت کے بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر1.331 ٹریلین روپے لاگت متوقع ہے، جس کی تکمیل کا ہدف 2027 تک ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کا مقصد سرکاری خزانے پر سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے کے علاوہ بجلی کی طلب میں کمی اور زراعت پر ان پٹ لاگت کو کم کرنا ہے۔ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے سے کسانوں کے فی ایکڑ اخراجات میں کمی آئے گی اور اس کے نتیجے میں ڈیزل اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہو گا اور قیمتی زرمبادلہ کی بھی بچت ہو گی۔ویلتھ پاک کے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کی سالانہ لاگت 0.87 بلین ہے، اور حکومت اس کے لیے ہر سال 132 بلین روپے کی سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ ٹیوب ویلوں کے لیے سالانہ 3.23 بلین لیٹر ڈیزل درکار ہے جس کی قیمت 2.74 بلین ڈالر ہے۔پاکستان میں ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کی تعداد تقریبا 1.2 ملین ہے، جو کل کا 79% ہے، جب کہ بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلز کی تعداد 0.31 ملین ہے، جو کل کا 21% ہے۔یہ خدشہ بھی ہے کہ ٹیوب ویلوں کے لیے بلاتعطل اور سستی بجلی کی فراہمی زیر زمین پانی کے اخراج کو مزید تیز کر سکتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کی بار بار لوڈ شیڈنگ اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے بجلی یا ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کے مقابلے ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن آبپاشی کے پانی کا ایک سستا اور قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ تاہم، یہ تازہ زیر زمین پانی کے طاسوں کے اخراج کو تیز کر سکتا ہے اور نمکیات اور دیگر غذائی اجزا کو دوبارہ تقسیم کر سکتا ہے جس کے ذریعہ معاش، خوراک اور انسانی سلامتی کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔پاکستان کی اقتصادی ترقی توانائی کے شعبے میں رکاوٹوں کی وجہ سے روکی ہوئی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت کے 10,000 میگاواٹ سولر انرجی پراجیکٹ جیسے اقدامات پر عملدرآمد سے نہ صرف مہنگے ڈیزل اور فرنس آئل کے درآمدی بل کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے روایتی بجلی کو شمسی توانائی سے بدل کر ماحول کو بچانے میں بھی مدد ملے گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی