آئی این پی ویلتھ پی کے

ہماری نا اہل اشرافیہ کی اکثریت کو پراپرٹی بزنس کے علاوہ کچھ نہیں آتا، شاہد رشید بٹ

۵ مئی، ۲۰۲۳

تاجر رہنما اوراسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اشرافیہ موجود ہے۔ جن ممالک میں انھیں قابو میں رکھا جاتا ہے وہ ترقی کر جاتے ہیں اور جہاں بے لگام چھوڑ دیا جائے وہ ملک بھکاری بن جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی اشرافیہ پیداوار وبرامدت بڑھانے کے لئے سستے قرضے اور مراعات لیتی ہے جبکہ ہماری نا اہل اشرافیہ کی اکثریت کو پراپرٹی بزنس کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی اشرافیہ عالمی منڈی میں دیگر ممالک سے مقابلہ کرتی ہے جبکہ ہماری کاروباری اشرافیہ مسابقت کے نام سے بھاگتی ہے اور ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ملکی معیشت کی ترقی کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر اسے جان بوجھ کر انتہائی منافع بخش رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ زیادہ ترسرمایہ جزب کر لیتا ہے اور پیداواری شعبہ جو کہ روزگارکی فراہمی محاصل کی ادائیگی اور زرمبادلہ کمانے کا بڑا زریعہ ہے محروم رہ جاتا ہے۔ جب تک پراپرٹی سیکٹر پر جائز ٹیکس نہں لگایا جاتا اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکے گا اور ہمیشہ قرضوں کا محتاج رہے گا۔سالانہ اربوں ڈالر کے فوائد لینے والے برامدی شعبہ یہ حال یہ ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے مزدور ان سے زیادہ زرمبادلہ کماکر بھجواتے ہیں۔ ایک امریکی ادارے کے مطابق بھارت میں ارب پتیوں کی تعداد 169 ہے جن کے معلوم اثاثے 750 ارب ڈالرکے ہیں جبکہ ہم ایک ارب ڈالر کے قرضے لئے سات ماہ سے آئی ایم ایف کی منتیں کر رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے کلچر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے مگر پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جس نے اسے دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی قوت بنا دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے پڑوسی ممالک کی ترقی اور ہماری تنزلی کا سفر جاری ہے جس کا انجام قریب آ رہا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی