- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینا اور برآمدات میں اضافہ پاکستان کے لیے کرنٹ اکاونٹ خسارے سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی ہو سکتی ہے،اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے اسٹریٹجک پلاننگ اینڈ ریگولیٹری امور کے ڈائریکٹر حمزہ اورکزئی نے کہا کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں برآمدات میں حصہ ڈالنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے کیونکہ یہ اعلی قیمت والی اشیا تیار کر سکتا ہے جو عالمی منڈیوں میں مقابلہ کر سکتی ہیں۔ ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابقپاکستان کی معیشت بتدریج انتہائی ہنر مند، جدید اور پیداواری صنعتوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آج کی معیشت زرعی کم اور شہری اور خدمت پر مبنی زیادہ ہے۔ روایتی صنعتی کلسٹرز نے نئی مصنوعات برآمد کرنا شروع کر دی ہیںجبکہ انفارمیشن، کمیونیکیشن، اور ٹیکنالوجی ابھر رہی ہیں۔حمزہ نے کہا کہ ترقی کی رفتار سست ہے جوبنیادی طور پر نئی ٹیکنالوجیز کے بہت کم پھیلا وکے ساتھ مینوفیکچرنگ میں مضبوط بنیاد کی کمی اور بین الاقوامی بہترین طریقوں تک رسائی اور ان کو اپنانے میں فرموں کی نااہلی کی وجہ سے ہے۔پاکستان کے لیے، چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے تاکہ ملک کی دیرینہ اقتصادی ترقی کے لیے کچھ دیرینہ رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
عہدیدار نے کہا کہ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر چینی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع فراہم کرتا ہے کیونکہ اس میںخاص طور پر اس کے ملبوسات اور تیار کردہ سامان کے شعبوں میں ترقی کی وسیع صلاحیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فرمیںجارحانہ طور پر مشترکہ منصوبوں کے ذریعے چینی فنانس اور ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بہت سے بین الاقوامی برانڈز پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور مقامی ٹیکسٹائل ملوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔سرمایہ کاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان زونز میں بہترین ممکنہ مراعات، ہنر مند اور سستی مزدوری، خام مال کی آسان دستیابی، توانائی کے مسابقتی ٹیرف، کم مال برداری کے اخراجات، اور یورپی منڈیوں تک ترجیحی رسائی سے فائدہ اٹھائیں گے۔انہوں نے مشترکہ خوشحالی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کو اس خطے سے برآمدات بڑھانے کے لیے سی پیک کے صنعتی مرحلے کے دوران زیادہ سے زیادہ مشترکہ منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔حمزہ نے کہا کہ پاکستانی صنعت کاروں کی مسابقت کو بڑھانے کے لیے جدت بھی بہت ضروری ہے۔ تاہم انہوں نے کہاکہ پاکستان تحقیق اور ترقی اور اختراع کے لحاظ سے دوسرے ممالک سے پیچھے ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو تحقیق اور ترقی کے لیے تعاون کو بڑھانا چاہیے، یونیورسٹیوں اور کاروباری اداروں کے درمیان تعاون کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اختراعات کرنے والے کاروباروں کے لیے مراعات فراہم کرنی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ،نجی شعبے اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے کثیر الجہتی نقطہ نظر اور ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے جس میں پیداواری صلاحیت، قدر میں اضافہ، برآمدات کی سہولت اور اختراع میں سرمایہ کاری شامل ہو۔انہوں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینے اور برآمدات میں اضافے سے پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ مل سکتا ہے اور پاکستان کا غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق، مالی سال 2021-22 کے دوران جی ڈی پی میں 9.2 فیصد حصہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ نے مجموعی مینوفیکچرنگ سیکٹر پر غلبہ حاصل کیا، جو کہ شعبہ جاتی حصہ کا 74.3 فیصد بنتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی