آئی این پی ویلتھ پی کے

موجودہ قوانین کی موجودگی میں ملک قیامت تک ترقی نہیں کر سکتا،پاکستان اکانومی واچ

۱۵ مارچ، ۲۰۲۳

پاکستان اکانومی واچ کے چئیرمین برگیڈئیر(ر) محمد اسلم خان نے کہا ہے کہ موجودہ قوانین اور طرز عمل کی موجودگی میں ملک قیامت تک ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ قوانین اشرافیہ کے پشت پناہ ہیں جن کا عوام کے مفادات کے تحفظ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پاکستان میں فراڈ کا شکار ہونے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا جبکہ لوٹنے والے کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتاہے۔ مختلف محکمے سرمایہ کاروں کو شکار سمجھتے ہیں اور انھیں ہر طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں کاروبار کے لئے آنے والوں کی تعداد بہت کم اور بھاگنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔محمد اسلم خان نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ کمزور قوانین اور متعلقہ محکموں کی ملی بھگت کے نتیجے میں سب سے زیادہ فراڈ پراپرٹی سیکٹر میں ہو رہا ہے جہاں گھر فلیٹ یا پلاٹ لینے والوں کی بڑی تعداد کی زندگی بھر کی کمائی لوٹ لی جاتی ہے اور وہ انصاف کے حصول کے لئے کئی دہائیوں تک دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر ایک منظم مافیا کی صورت اختیار کر گیا ہے جس کی مدد سے کالا دھن چھپایا جاتا ہے اور اس میں سرمایہ کاری کو سب سے آسان اور منافع بخش رکھا گیا ہے اس لئے کوئی صنعت لگانے میں دلچسپی نہیں لیتاجو پیداوار برامدات ریونیو اور روزگار بڑھانے کا سب سے بہتر زریعہ ہے۔

اب تو زرعی شعبہ میں بھی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے اور یہ سرمایہ بھی رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں لگایا جا رہا ہے جسکی وجہ سے زرعی ملک اب اربون ڈالر کی گندم کپاس دالیں اور تیل درامد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اسلم خان نے مزید کہا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹراشرافیہ کا پسندیدہ شعبہ ہے اس لئے اس سے نہ تو مناسب ٹیکس لیاجاتا ہے اور نہ ہی اسے اس طرح سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے جیسا کہ کرنا چائیے اور اس کے لئے ایمنسٹی سکیمیں بھی لائی جاتی ہیں۔اس وجہ سے یہ شعبہ عوام اور ملکی معیشت کے لئے بڑی مصیبت بن گیا ہے۔ یہ شعبہ زرعی زمینوں کو ہڑپ کرنے مختلف سوسائیٹیوں کے زریعے شہروں کا حلیہ بگاڑنے معاشرے میں ناہمواری بڑھانے اورپلاٹ فائل کے نام پر عوام کو لوٹنے کے علاوہ پلاٹوں کی قیمت اتنی بڑھا دی گئی ہے کہ غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی گھر لینے کے قابل نہیں رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس حکومت کا نوے سے پچانوے فیصد ٹیکس ان ڈائریکٹ ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایف بی آر کو تالا ڈال دیا جائے تب بھی حکومت کی آمدنی میں بمشکل دس فیصدتک کمی آئے گی۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی