آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان 141.5 ملین ٹن مرچ پیدا کرتا ہے،میں زرعی ماہرین

۲۲ دسمبر، ۲۰۲۲

پاکستان، سرخ مرچ پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور 141.5 ملین ٹن مرچ پیدا کرتا ہے، پاکستان میں 85 فیصد مرچ صوبہ سندھ میں پیدا ہوتی ہے۔ ملک 90 ارب روپے کی کیڑے مار ادویات درآمد کر رہا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ زراعت میں کیمیکل ادویات کے استعمال سے پیدا ہونے والے اجناس کو کھانے سے انسانوں میں عدم برداشت جیسے منفی رویے پروان چڑھ رہے ہیں تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں زرعی ماہرین نے تربیتی ورکشاپ کے بعنوان ایفلاٹاکسن بائیو کنٹرول ـ اختراعی حکمت عملی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ورکشاپ کا انعقاد شعبہ اینٹومولوجی، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد،CABI، PARC اور NARC کے اشتراک سے کیا گیا۔، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا ہے کہ ملکی سطح پر زراعت کے شعبے میں بائیو پیسٹیسائیڈز کو فروغ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اجناس کو بیماریوں سے بچانے کیلئے کیمیائی کنٹرول کا استعمال نہ صرف متعدد بیماریوں کا باعث بن رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کو بھی بری طرح متاثر کر رہا ہے۔فصلوں پر کیمیکلز کا زیادہ استعمال صحت اور ماحولیاتی خطرات کو جنم دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غذائی تحفظ اور صحت عامہ کو یقینی بنانے اور زرعی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے زراعت کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیڑے اور بیماریاں کاشتکاروں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے بائیو کنٹرول کو فروغ دینا ہوگا۔ڈین کلیہ زراعت پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور نے کہا کہ کیمیائی کنٹرول کی وجہ سے انسانی اور جانوروں کی صحت کے لیے نقصان دہ اور کیمیکل کیڑے مار ادویات کا استعمال برآمدات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو شدید سیلاب کی وجہ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا تاہم زراعت کی بحالی کیلئے زرعی یونیورسٹی تمام اقدامات بروئے کار لا رہی ہے۔چیئرمین انٹومالوجی پروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد نے کہا کہ ملک سرخ مرچ پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور 141.5 ملین ٹن مرچ پیدا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2022ـ21 میں سرخ مرچ کی 61کنسائنمنٹس کو ایفلاٹاکسن کی وجہ سے مسترد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تجارتی ممالک کی ایس پی ایس بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پرنسپل آفیسر شعبہ تعلقات عامہ و مطبوعات پروفیسر ڈاکٹر جلال عارف نے کہا کہ جراثیم کش کیمیکل ادویات کینسر سمیت کئی بیماریوں کو جنم دے رہی ہیں اور اس کے مضر اثرات کی وجہ سے نہ صرف انسانی صحت بلکہ جانوروں اور اس کے ساتھ ساتھ ماحولیات اور ایکو سسٹم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ایم آر ایل لیبارٹریاں نہ ہونے کے براربر ہیں جس کیلئے اقدامات عمل میں لانے چاہیئں۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک 90 ارب روپے کی کیڑے مار ادویات درآمد کر رہا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں کی زیر سرپرستی زراعت میں جدید رجحانات کو فروغ دینے کیلئے تمام ممکنہ کاوشیں کر رہی ہے۔ڈاکٹر پرویز احمد نے کہا کہ ایفلاٹاکسن انسانوں اور مویشیوں کے لیے صحت کے سنگین مسائل پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بائیولوجیکل کنٹرول کے بارے عام کاشتکار میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے مشترکہ کاوشیں عمل میں لانی چاہیے۔

ڈاکٹر حامد بشیر نے کہا کہ پاکستان سمیت ایشیا میں ترقی پذیر معیشتوں کو قابل اجازت حد سے زیادہ ایفلاٹاکسن کے پھیلاؤ اور کیڑے مار ادویات کی زیادہ سے زیادہ باقیات کی حد (MRLs) کی بین الاقوامی معیارات پر پورا ترنے کی وجہ سے ایکسپورٹ میں کمی کا باعث ہے۔انہوں نے کہا کہ زراعت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کر کے ہی خوراک اور صحت عامہ کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پنجاب ایگریکلچر ریسرچ کونسل ڈاکٹر عاطف جمال نے کہا کہ صارفین کے لیے معیاری خوراک کو یقینی بنانے کے لیے ویلیو چین سے تعلق رکھنے والے افراد کو بین الاقوامی فوڈ کوڈ کے معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ ڈاکٹر سبیان فارس نے کہا کہ CABI شراکت داروں اور پاکستانی مرچوں کے کاشتکاروں کے ساتھ مل کر ایفلاٹاکسن بین الاقوامی معیارات اور MRL ضوابط کی تعمیل میں اضافہکرنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ڈاکٹر شاہد مجید نے کہا کہ پاکستان میں 85 فیصد مرچ صوبہ سندھ میں پیدا ہوتی ہے۔ تاہم ایک دہائی کے دوران بین الاقوامی معیارات کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سے مرچوں کی برآمد میں کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کاشتکار برادری میں بائیو پیسٹیسائیڈز کے بارے شعور بیدار کرنا ہوگا۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی