آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان اپنی ریتلی زمینوں کی ترقی کے لیے چین سے تکنیکی مدد مانگ سکتا ہے،ویلتھ پاک

۲ نومبر، ۲۰۲۲

پاکستان کا کل صحرائی رقبہ 12ہزارمربع کلومیٹر ،پانی کے انتظام کا مناسب نظام موجود ہو تو صحرا فصل پیدا کرنے والے کھیتوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں،پنجاب حکومت کا صحرائے چولستان کو پائپ لائنوں کے ذریعے نہری پانی کی فراہمی کا منصوبہ جلد شروع ہونے کا امکان،پاکستان اپنی ریتلی زمینوں کی ترقی کے لیے چین سے تکنیکی مدد مانگ سکتا ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پانی کے انتظام کا مناسب نظام موجود ہو توپاکستان میں صحرا فصل پیدا کرنے والے کھیتوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت صحرائے چولستان کے رہائشیوں کو ان کے سماجی معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے پانی فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہ پروجیکٹ اس نایاب شے کے موثر استعمال کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لائے گا۔ جنوبی پنجاب میں واقع صحرائے چولستان تقریبا 25800 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جس کی لمبائی تقریبا 480 کلومیٹر اور چوڑائی 32 سے 192 کلومیٹر ہے۔ پوری دنیا میںڈیزرٹس کو متعدد طریقوں سے پیداواری زمینوں میں تبدیل کیا جاتا ہے جس میںکان کنی، نمکین پانی سے لیتھیم نکالنا،کاشتکاری اور شمسی ونڈ انرجی فارمز کا قیام شامل ہے۔

پاکستان کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے۔ صحرائی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے سماجی و اقتصادی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ان کی رہائش کا بندوبست ان کے رہنے کی جگہ کی حدود میں ہو۔ پاکستان کا کل صحرائی رقبہ تقریبا 30,000 کلومیٹر یا 12,000 مربع کلومیٹر ہے۔ صحرائے تھل، پنجاب ، سندھ میں تھر کا صحرا، بلوچستان کا صحرائے خاران اور گلگت بلتستان کا سرد صحراپاکستان کے مشہور ریگستان ہیں۔ پاکستان مشرق وسطی کی اقوام سے معاونت لے سکتا ہے جنہوں نے اپنے صحرواں کو پیداواری کھیتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ صحرائے نگیبا کوجدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت پیداواری بنا دیا گیا ہے اور فی ہیکٹر تقریبا 80 ٹن زرعی پیداوار حاصل کرتا ہے جس کی فصلیں گندم، جو، انجیر، انگور، بادام، زیتون ہیں۔ چین صحرائے گوبی کو زیادہ پیداوار والی زمین میں تبدیل کرنے کی ایک اور کامیاب مثال ہے۔ پاکستان میں ریگستانوں کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے آن فارم واٹر مینجمنٹ، پنجاب کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالستار نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ صحراوں میں رہنے والے لوگوں کے معاشی حالات کو بلاتعطل پانی کی فراہمی سے یقینی بنا کر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی صحراوں میں پایا جانے والا پانی زیادہ تر نمکین یا پمپنگ کی حد سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صحرائے چولستان کو پائپ لائنوں کے ذریعے نہری پانی کی فراہمی کا منصوبہ شروع کرنے کا پلان بنا رہی ہے۔ یہ ایک کثیر مرحلہ پراجیکٹ ہے جس کے ذریعے علاقے کو 'مساوی طور پر منقسم کلومیٹر کی پٹیوں' میں الگ کرکے علاقے میں پانی کا نظام تیار کیا جائے گا۔ عبدالستار نے کہا کہ اس منصوبے سے مقامی لوگوں کو صاف پانی کی وافر مقدار میں فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ پانی کی دستیابی لوگوں کو اس قابل بنائے گی کہ وہ اپنی اب تک کی بنجر زمینوں کا بھرپور استعمال کر کے فصلیں اور سبزیاں پیدا کر سکیں تاکہ انسانی اور مویشیوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔پاکستان کے صحرائی علاقے کا 81 فیصد سے زیادہ حصہ ریت کے ٹیلوں پر مشتمل ہے اور باقی جھاڑی والے فلیٹ اور ریت کے جھونکے ہیں۔ جب بھی بارش ہو تو لوگوں کو خود ساختہ تالابوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ ان تالابوں کے آس پاس کی سبزیاں پانی کے اخراج اور بخارات کو روک سکتی ہیں۔ صحراوں کے باشندوں کو مختلف فصلیں اگانے کے لیے صاف پانی بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ریت کا استحکام صحراوں کو زرخیز کھیتوں میں تبدیل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ چین کی طرح "درختوں کی عظیم دیوار" کے تصور اور پودوں کے لیے پودوں کے پیسٹ کے استعمال پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اپنی ریتلی زمینوں کی ترقی کے لیے چین سے تکنیکی مدد مانگ سکتا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی