آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان گارنیٹ کی وسیع اقسام کی مقدار اور معیار دونوں سے مالا مال ہے، ویلتھ پاک

۲۰ اکتوبر، ۲۰۲۲

پاکستان گارنیٹ کی وسیع اقسام سے مالا مال،زگی پہاڑ، بٹہ کنڈی، بٹگرام، گلگت بلتستان، کوئٹہ، چلاس، باجوڑ، مانہ، برنگ میں زخائر موجود ہیں۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان گارنیٹ کی وسیع اقسام کی مقدار اور معیار دونوں سے مالا مال ہے تاہم اس کی طرف حکومتی توجہ کا فقدان ملک کو زرمبادلہ سے محروم کر رہا ہے۔ گارنیٹ کا بڑا حصہ صنعتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں پالش، فلٹریشن، واٹر جیٹ کٹنگ، ہوائی جہاز اور موٹر گاڑیوں کی تیاری، سیرامکس اور شیشے کی تیاری ، کھرچنے والے گیرٹس اور پاوڈرز، الیکٹرانک اجزا کی تیاری، لکڑی کے فرنیچر کی تکمیل، ٹیکسٹائل پتھر کی دھلائی، جہاز سازی، فلٹریشن پلانٹس، اور بلاسٹنگ گرینولز شامل ہیں۔ گارنیٹ کی قیمتیں 500 سے 7000 ڈالرفی کیرٹ ہیں۔گلوبل مائننگ کمپنی اسلام آباد کے پرنسپل جیولوجسٹ اور پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے سابق جی ایم جیولوجی محمد یعقوب شاہ نے ویلتھ پاک کے ساتھ بات چیت میں کہاکہ گارنیٹ ایک سلیکیٹ معدنیات ہے جس میں کئی اقسام ہیں۔ کسی دوسرے قیمتی پتھر کے بجائے پیرا میگنیٹک آئرن کے زیادہ ارتکاز کی وجہ سے گارنیٹ زیادہ مقناطیسی ہوتا ہے۔بلوچستان سے جواہرات کے معیار کے سبز گارنیٹ کی دریافت ہوئی ہے جب کہ جیم گریڈ کی سرخ قسم صوبہ گلگت بلتستان کے سب ڈویژن بلتستان کی وادی شگر میں پائی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ گارنیٹ کے پی کے اضلاع سوات اور کوہستان میں پایا جاتا ہے۔آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین، جیمولوجسٹ اور کان کن ذاکر اللہ عرف جھولے لال نے کہا کہ پاکستان شاندار معیار کے گارنٹس سے بھرا ہوا ہے جن کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ جہاں بھی پتھر کی کان کنی کی جاتی ہے وہاں گارنیٹ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان گارنیٹ کی مقدار اور اقسام سے مالا مال ہے جن میں اسپیسارٹائن، روڈولائٹ، المنڈائن، اینڈراڈائٹ، گروسولر، تساورائٹ، ہیسونائٹ یا فانٹا گارنیٹ، لیوکواوربے رنگ گارنیٹ شامل ہیں۔زگی پہاڑ، بٹہ کنڈی، بٹگرام، گلگت بلتستان، کوئٹہ، چلاس، باجوڑ، مانہ، برنگ میں اس کے زخائر موجود ہیں۔ گارنیٹ چلاس میں ہیمیٹائٹ کے ساتھ مل کر اور پکھراج ٹورمالائن وغیرہ کی کانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ چین اور تھائی لینڈ اس پروڈکٹ کے لیے نسبتا اچھی مارکیٹ ہیں۔ پاکستان میں گارنٹس کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس کی کان کنی پر حکومتی توجہ کا فقدان بہت مایوس کن ہے۔

میکانائزڈ کان کنی، ٹولز اور سہولیات کا فقدان ملک کو معیاری کان کنی اور معاشی فوائد سے محروم کر رہا ہے۔ ماہر ارضیات اور کان کن عمران بابر نے کہاکہ پاکستانی گارنیٹ بین الاقوامی مارکیٹ میں مانگ میں بہت زیادہ ہیں۔ اس نیم قیمتی جواہر سے مناسب معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک اچھا انفراسٹرکچر، میکانائزڈ کان کنی، اور حکمت عملی سے بھرپور مارکیٹنگ بہت ضروری ہے۔ عمران نے کہا کہ قیمتی جواہرات کا 70 فیصد صنعت میں استعمال ہوتا ہے جبکہ 30فیصد دستکاری کے زیورات یا نمونے بنانے میں استعمال ہو تا ہے۔اگر اسے صنعتی یا کسی دوسرے استعمال کے لیے پروسیسنگ کے بعد فروخت یا برآمد کیا جائے تو ملک کو اچھا منافع حاصل ہو سکتا ہے۔گارنیٹ یا کسی دوسرے قیمتی پتھر کی پروسیسنگ کے لیے انتہائی مہنگے یونٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر کانوں کے آس پاس رہنے والے لوگوں کو جواہر پتھر کی پروسیسنگ میں مناسب طریقے سے تربیت دی جائے تو یہ ان کے لیے آمدنی کا ایک اضافی خوبصورت ذریعہ بن سکتا ہے خاص طور پر برف باری کے موسم میں جب زرعی سرگرمیاں تقریبا بند ہو جاتی ہیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی