- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان گلاب کی کاشت اور اس کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو فروغ دے کر قیمتی زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے،عالمی منڈی میں روز آئل کی قیمت 5ہزار ڈالر فی کلو گرام تک ہے،ایک کلو خالص تیل نکالنے کے لیے چار ٹن گلاب کے پھولوں کی ضرورت ہوتی ہے، چوآ سیدن شاہ اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں کاشت کا عمل جاری،کاشتکاروں کو گلاب کی قیمتی مصنوعات حاصل کرنے کے لیے چھوٹے پلانٹس لگانے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق گلاب کی کاشت اور اس کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو فروغ دینے سے پاکستانی کسانوں کو اچھا منافع مل سکتا ہے اورملک کو شاندار زرمبادلہ کمانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ایک کلو خالص تیل نکالنے کے لیے تقریبا چار ٹن گلاب کے پھولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔گلاب کے تیل کی قیمت 595 ڈالرسے 5,000 ڈالرفی کلوگرام تک ہوتی ہے۔ اس وقت تقریبا 90 فیصدگلاب کے پھولوں کو گلاب کا تیل نکالنے کے لیے اور صرف 4 فیصدتک گلاب کا عرق حاصل کیا جاتا ہے۔گلاب کوجام، جیلی، کھانے کا ذائقہ، کھانا پکانے، چائے، کاسمیٹکس اور پرفیومز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گلاب کے بیج بھی خوشبودار مسالے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مہمان نوازی کی صنعت ،مزارات اور سجاوٹ میں بھی گلاب کا استعمال بڑی مقدار میں ہوتا ہے۔ پرنسپل سائنٹیفک آفیسرپلانٹ انٹروڈکشن اینڈ سیڈ ہیلتھ لیب نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر ڈاکٹر رفعت طاہرہ نے ویلتھ پاک سے بات چیت کے دوران کہا کہ گلاب کی پنکھڑیوں کو تیل تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی ضمنی پیداوار گلاب کا عرق ہے جو بھاپ کشید کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ خوشبودار نوٹ اور ادویات تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ سینیول وہ جز ہے جو گلاب کی مخصوص خوشبو کا سبب بنتا ہے اور مصنوعی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ رفعت طاہرہ نے کہا کہ 1 سے 2 ملی لیٹر تیل حاصل کرنے کے لیے کافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف خالص ضروری تیل کو دواں کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ان مرکبات کی صحیح مقدار کا صرف ہم آہنگی کا اثر ہی حقیقی دواوں کے اثرات دیتا ہے۔ گلاب کی ایک اور پیداوار گلاب ہپ آئل ہے، جسے ہائیڈرو ڈسٹلیشن کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ اسے کھانے کے اجزا یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
رفعت طاہرہ نے کہا کہ عام طور پر مارکیٹ میں دستیاب گلاب کے تیل کو اس کی پنکھڑیوں کو ٹوئنز میں دبا کر اور پروسیس کر کے نکالا جاتا ہے۔ گلاب کا خالصخالص ترین تیل نکالنے کا کام صرف سپر کریٹیکل کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالنے والے یونٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے جو ایک اوسط سرمایہ کار کے لیے بہت مہنگا ہو سکتا ہے تاہم حکومت گلاب کی کاشت والے علاقوں کے قریب کے علاقوں میں ایسے یونٹ لگا سکتی ہے۔ ایسے منصوبوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ این اے آرسی کے غذائیت کے سیکشن کے پرنسپل سائنٹفک آفیسر شہباز جاوید نے خشک گلاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولٹری فارمز پر بائیولوجیکل لیٹر کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ اینٹی بیکٹیریل کے طور پر کام کرتا ہے۔ زیادہ تر پھولوں کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے، جسے پرندوں کے پنجروںاورکھیتوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔گلاب کی کاشت کو فروغ دینے اور ویلیو ایڈیشن کے بارے میں ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے محکمہ زراعت پنجاب کے ایک ماہر نوید احمد نے کہا کہ عالمی سطح پر گلاب کو اس کی حقیقی یا پروسیس شدہ شکل میں ایک قیمتی پیداوار سمجھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے کاشتکار اسکی معاشی قدر سے بخوبی واقف نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ایسی اقسام چوآ سیدن شاہ اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں کاشت کی جاتی ہیں۔ دوسرے صوبوں میں اس کی کاشت کم پیمانے پر کی جاتی ہے۔ نوید احمد نے بلوچستان اور دیگر پانی کی کمی والے علاقوں میں اس کی کاشت کو فروغ دینے پر زور دیا کیونکہ خشک ٹھنڈے علاقے اس کے لیے مثالی ہیں۔کاشتکاروں کو گلاب کی قیمتی مصنوعات حاصل کرنے کے لیے ان کے علاقوں میں چھوٹے پلانٹس لگانے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ ایک کاشتکا ر شمائل نظام نے کہا کہ میرے اپنے فارم میں تقریبا 5,445 مربع فٹ رقبہ پر گلاب کاشت ہے۔ ان دنوں یہ تقریبا 150 روپے فی کلو اور گلاب کی پتیاں 100 روپے فی کلو فروخت ہوتی ہیں۔ خشک پھو ل اور پنکھڑی 4000 روپے سے 6000 روپے فی من فروخت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کو اس کی کمرشل ویلیو، ویلیو ایڈیشن، سیلز پروموشن، مارکیٹنگ، ایکسپورٹ کے بارے میں مناسب آگاہی فراہم کرے۔ کاشتکار انتہائی خوشبودار اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کاشت کر کے شاندار منافع کما سکتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی