- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان کے معاشی مسائل کے حل اور چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف تیزی سے بڑھنے کیلئے سمارٹ پالیسیوں کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر ڈاکٹر خرم طارق نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہی۔ انہوںنے کہا کہ لارج سکیل مینو فیکچرنگ سے پہلے سٹیل، پیٹرو کیمیکل اور انجینئرنگ کی صنعتوں کا قیام ضروری ہے اور اس کام کو 1980ء میں کر لیا جانا چاہیے تھا مگر ہم نے'' ٹرین مس'' کر دی جس کی وجہ سے ہم بتدریج درآمدی ملک بنتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے لارج سکیل مینو فیکچرنگ کی پالیسی نہ ہونے کے باوجود یہاں بغیر منصوبہ بندی کے بڑی صنعتیں قائم کی گئیں جن میں سے کئی بند یا بیرون ملک منتقل ہو رہی ہیں۔ انڈیا کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر خرم طارق نے کہاکہ اس ہمسایہ ملک نے 1991ء میں لارج سکیل مینو فیکچرنگ پر کام شروع کیا ۔ اس وقت انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 1بلین ڈالر تھے مگر آج وہ ہم سے بہت آگے جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ابھی تک فارما سوٹیکل کی ایک بھی ملٹی نیشنل کمپنی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان انجینئرنگ بورڈ نے بھی اپنا بروقت کردارادا نہیں کیا جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ انہوں نے سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا حوالہ دیا اور کہا کہ وزیر بننے کے بعد انہوں نے پاکستان اینگرو انڈسٹری کے قیام کی اپنی غلطی کو تسلیم کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو سائلو اور Motherانڈسٹری کی ضرورت ہے جبکہ اُن کو ترقی کیلئے یکساں مواقع مہیا کرنے ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گنے کی فصل سالانہ دس ارب روپے کا پانی استعمال کرتی ہے جبکہ اس شعبہ کوبہت سی دیگر مراعات بھی حاصل ہیں۔ انہوں نے کپاس کے روایتی علاقوں میں گنے کی کاشت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اِن علاقوں میں کپاس کی کاشت کو ترجیح دی جائے تاکہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو وافر مقدار میں خام مال ملتا رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی سطح پر ہمیں اخلاقیات کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ مزید برآں پاکستان کو اہلیت کے مسائل بھی در پیش ہیں جن پر فوری اور بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل انجینئرنگ کونسل کے ڈپٹی کنونیر انجینئر امتیاز حسین شاہ نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ اس وقت کونسل کانکنی کے شعبہ پر کام کر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے قائمہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کو پاکستان کی معاشی ترقی ، ذہین طبقہ کی بیرون ملک منتقلی کو روکنا اور لوگوں کیلئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کے اہداف دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں مختلف چیمبرز سے مشاورت کر رہے ہیں تاکہ اُن کی تجاویز اور سفارشات پر مبنی پالیسی تشکیل دی جا سکے۔ کانکنی کے بارے میں تھنک ٹینک کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر غالب عطاء نے بتایا کہ لارج سکیل مینو فیکچرنگ بنیادی طور پر 22سیکٹرز پر مشتمل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس وقت پاکستان میں حالات سازگار نہیں تا ہم اِس کے باوجود انجینئرنگ کونسل کو بنیادی نوعیت کے تین سے پانچ قسم کے اہم شعبوں کی نشاندہی کرنا ہو گی جن کی مشینری کو مقامی طور پر تیار کر کے خود انحصاری کے علاوہ درآمدی بل کو بھی کم کیا جا سکے۔ سولر انرجی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ انجینئرنگ کونسل اس پر بھی کام کر رہی ہے تاہم اندیشہ ہے کہ اگر بروقت اس شعبہ سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری فیصلے اور اقدامات نہ اٹھائے گئے تو حکومت کو ریونیو جنریشن میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد چیمبر ہمیں ایسی مشینری کی فہرست مہیا کرے جو لارج سکیل مینو فیکچرنگ کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہو تاکہ اس شعبہ کے پوٹینشل سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم ایک فار م بھی آپ کے ساتھ شیئر کریں گے جس کی بنیاد پر آئندہ کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے کہا کہ یہ فارم ہم مختلف ایسوسی ایشنوں سے شیئر کریں گے تاکہ مختلف سیکٹرز کیلئے کلیدی نوعیت کی مشینری کی نشاندہی کی جا سکے۔ اس موقع پر نائب صدر حاجی محمد اسلم بھلی، ایگزیکٹو ممبر محمد طیب، ایگزیکٹو ممبر مقصود اختر بٹ ، ایگزیکٹو ممبر محمد طیب، ایپبوما کے انجینئر بلال جمیل، محمد افضال، پی ایچ ایم اے کے حاضر خاں اور طاہر خاں بھی موجود تھے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی