- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان کی 20فیصد سے زائد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے،37 فیصد بچوں کی نشوونما رکی ہوئی ہے، غذائی قلت کے شکار بچوں کا تناسب 36.7 فیصد ہے،36 ملین ٹن خوراک ضائع ہو رہی ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا زرعی شعبہ جو ملک کی جی ڈی پی اور روزگار میں کلیدی شراکت دار ہے مختلف چیلنجوں سے نبرد آزما ہے جو غربت اور غذائی عدم تحفظ کو کم کرنے میں اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ڈین ڈاکٹر شجاعت فاروق نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ پاکستان میں زراعت کا شعبہ اس کی جی ڈی پی میں پانچواں حصہ ڈالتا ہے جب کہ 37.4 فیصد روزگار اسی شعبے میں مرکوز ہے۔ 50 سے 60 فیصد برآمدات کا براہ راست اور بالواسطہ طور پر زراعت سے تعلق ہے اور یہ شعبہ خالصتا زرعی علاقوں میں بھی غربت اور بھوک کو کم کرنے میں مدد نہیں دے رہا ہے۔ شمالی پنجاب کے بارانی علاقوں میں غربت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ 20 فیصد سے زائد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غذائی قلت عروج پر ہے، 37 فیصد بچوں کی نشوونما رکی ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں کا تناسب 36.7 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ تناسب 30.2 فیصد، بھارت میں 30.9 فیصد اور سری لنکا میں ہے۔
ڈاکٹر شجاعت نے زور دیا کہ غذائی عدم تحفظ اس وقت 40 فیصد پر ہے جس نے نچلے متوسط طبقے کے لیے خوراک کی خریداری کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ ضیاع اور نقصانات دیگر اہم چیلنجز ہیں جن کا پاکستان میں زراعت کے شعبے کو سامنا ہے، پیداواری سطح پر خوراک کے 8فیصدنقصانات، اور سپلائی چین، ذخیرہ کرنے اور گھروں میں ضائع ہونے کے مسائل کی وجہ سے 30فیصدفصل کٹائی کے بعد ضائع ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے، 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہو رہی ہے جو کہ کراچی، حیدرآباد اور لاہور کے بڑے شہروں کی آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے کافی ہے۔ ڈاکٹر شجاعت نے روشنی ڈالی کہ گندم سمیت پانچ بڑی فصلوں کی پیداوار کپاس، گنا، مکئی اور چاول، زراعت کے شعبے میں 80 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے پیداواری رقبہ میں اضافہ نہیں ہوا۔ انہوں نے تجویز دی کہ پیداوار میں اضافے کے لیے کم پیداوار والی فصلوں سے زیادہ پیداوار والی فصلوں کی طرف منتقل ہو کر دیہی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان فصلوں کی موجودہ پیداوار عالمی معیار سے کم ہے، کوئی بھی عالمی معیار کے 50 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔
آئرلینڈ کی پیداوار 10.10 ٹن فی ہیکٹر ہے۔ اسی طرح پاکستان کی کپاس کی پیداوار 566 کلوگرام فی ہیکٹر ہے جب کہ چین 2,032 کلوگرام فی ہیکٹر پیداوار کے ساتھ دنیا میں سرفہرست ہے۔ پاکستان میں گنے کی پیداوار 70.3 ٹن فی ہیکٹر ہے جبکہ پیرو 115.8 ٹن فی ہیکٹر پیداوار کے ساتھ سرفہرست ہے۔ پاکستان میں مکئی کی پیداوار 6.4 ٹن فی ہیکٹر ہے جبکہ سینٹ ونسنٹ اور گریناڈائنز 30.3 ٹن فی ہیکٹر پیداوار کے ساتھ سرفہرست ہیں۔پاکستان کی چاول کی پیداوار 4 ٹن فی ہیکٹر ہے جب کہ مصر 10.2 ٹن فی ہیکٹر پیداوار کے ساتھ سرفہرست ہے۔ رپورٹ میں کئی عوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے جو پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ ان میں زمینوں کی تقسیم، استحصالی مڈل مینوں پر انحصار، میکانائزیشن اور جدید تکنیکوں کی سستی اور دستیابی میں فرق، بیج کا ناقص معیار، خاص طور پر کپاس کا ناقص معیار، پانی کا بے جا استعمال، فصل کی فرسودہ تکنیک، اور کمزور کولڈ چین اور لاجسٹکس شامل ہیںجس کی وجہ سے بعد میں اعلی پیداوار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں حکومت پاکستان کو ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق جدید تکنیک اور میکانائزیشن کی ترقی، بیج کے معیار میں بہتری، پانی کے تحفظ اور لاجسٹکس سے نہ صرف فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی