آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان کی 40 فیصد آبادی شہری علاقوں میں مقیم ، یہ تناسب 2050 تک بڑھ کر 60 فیصد تک پہنچ جائیگا

۴ اپریل، ۲۰۲۳

پاکستان کی 40 فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے اور یہ تناسب 2050 تک بڑھ کر 60 فیصد تک پہنچ جائیگا،2030 تک آلودگی کی وجہ سے ہونے والی قبل از وقت اموات میں 53 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے،2050 تک زیادہ تر شہروں میں گاڑیوں کی تعداد دوگنی ہو جائیگی،طویل مدتی منصوبہ بندی اور بہتر میونسپل سروسز کے ذریعے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے،بڑھتی ہوئی آبادی نے پہلے سے ہی تنگ وسائل اور انفراسٹرکچر پر دبائو بڑھادیا۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کی ڈپٹی ڈائریکٹرعظمت ناز نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طویل مدتی منصوبہ بندی، گرین اربن موبلٹی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری اور بہتر میونسپل سروسز کے ذریعے شہروں کو مزید لچکدار اور رہنے کے قابل مقامات میں تبدیل کرنے سے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے اور گرین ہاوس کے اخراج کو کم کرنے کے لیے شہروں کی لچک اور رہائش کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔

پاکستان میںبہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح تیزی سے شہری کاری اور بڑھتی ہوئی آبادی نے پہلے سے ہی تنگ وسائل اور انفراسٹرکچر پر دبائو بڑھایا ہے جس کے نتیجے میں رہائش کی خراب صورتحال اور صاف پانی، صفائی اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی خدمات تک ناکافی رسائی ہے۔ عظمت ناز نے کہا کہ پاکستان کی تقریبا 40 فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے اور یہ تناسب 2050 تک بڑھ کر تقریبا 60 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ان کے لیے میونسپل سروسز کے درمیان ہم آہنگی اور انضمام کو بہتر بنانے سے خدمات کی فراہمی کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے تاکہ شہری رہائشیوں کو بنیادی خدمات تک رسائی حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ شہری منصوبہ بندی روایتی طور پر طویل مدتی منصوبہ بندی کے بجائے مختصر مدت کے حل پر مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر منصوبہ بند شہری ترقی کے نتیجے میں غیر رسمی بستیاں اور کچی آبادیاں تعمیر ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان بستیوں میں بنیادی خدمات اور انفراسٹرکچر کا فقدان ہے جہاں کے رہائشی اکثر نازک حالات میں رہتے ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر نے نوٹ کیا کہ طویل المدتی منصوبہ بندی جس میں تمام رہائشیوں پر غور کیا جائے اور بنیادی خدمات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے شہری رہائشیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں شہری ترقی کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔عظمت ناز نے کہا کہ اس نقطہ نظر کے لیے پالیسی اصلاحات، ادارہ جاتی مضبوطی اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت شہری انفراسٹرکچر میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور شہری ترقیاتی منصوبوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسی اصلاحات متعارف کر سکتی ہے جومربوط خدمات کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔شہری بنیادی ڈھانچے اور آفات سے نمٹنے کی تیاری میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری بھی اہم ہے ۔انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع شمسی اور ہوا میں سرمایہ کاری اخراج کو کم کر سکتی ہے اور ہوا کے معیار کو بہتر بنا سکتی ہے۔ عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 10 بڑے شہروں کو گرین ہاوس گیس کے اخراج اور فضائی آلودگی کی بلند سطحوں میں اہم کردار ادا کرنے والوں کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔

توانائی کے استعمال، ٹرانسپورٹ، صنعت اور فضلہ سے بڑے پیمانے پر اخراج نے ان شہری علاقوں میں فضائی آلودگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے جورہائشیوں کی صحت اور پیداواری صلاحیت کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کو بین الاقوامی سطح پر قائم کردہ معیارات کے مطابق کم کرنے سے 2030 تک آلودگی کی وجہ سے ہونے والی قبل از وقت اموات میں 53 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے اور 2040 تک اس کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ صحت کی لاگت میں بھی خاطر خواہ بچت ہوگی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ 2050 تک زیادہ تر شہروں میں گاڑیوں کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہونے کی توقع ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔سبز شہری ٹرانسپورٹ کی طرف منتقل ہونے سے فضائی آلودگی میں بھی کمی آسکتی ہے۔میونسپل سروسز کو بہتر بنانے خاص طور پرکچرے کو پھینکنے میں 25 فیصد کمی کے نتیجے میں 2035 تک ٹھوس فضلہ کے انتظام سے اخراج میں مجموعی طور پر 50 فیصد کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی