- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان کی آب و ہوا گٹھیا کے علاج کے لیے مختلف مرکبات کی حامل دواوں کے پودوں کو اگانے کے لیے مثالی ، فارما انڈسٹری میں توسیع ، درآمدی بل میں کٹوتی اورروزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آب و ہوا گٹھیا کے علاج کے لیے مختلف مرکبات کی حامل دواوں کے پودوں کو اگانے کے لیے مثالی ہے جس سے فارما انڈسٹری میں توسیع اور ترقی، کم پیداواری لاگت، ادویاتی نمکیات کے درآمدی بل میں کٹوتی، اپنے تیار کردہ ادویاتی نمکیات کی برآمداورروزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس شعبے میں نباتات کے ماہرین، ہربل کیور پروفیشنلز، فارماسیوٹیکل ماہرین اور کسانوں کے لیے بہتر کمائی ہے۔ پپیتا، ہلدی، ادرک اور فائٹو کیمیکلز سوزش اور مدافعتی خصوصیات رکھتے ہیں اور ملک میں اچھی طرح اگائے جا سکتے ہیں۔ پرنسپل سائنسی نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر ڈاکٹر رفعت طاہرہ نے ویلتھ پاک کو بتایاکہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگے ریڈیو فریکوئنسی علاج کی وجہ سے بڑی تعداد میں گٹھیا، ہرنیٹڈ ڈسک اور سائیٹیکا کے مریض ٹھیک نہیں ہو پاتے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے این اے آر سی تجارتی بنیادوں پر دواوں کے پودوں کی باقاعدہ نشوونما کو فروغ دینے کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارا پلانٹ جینیٹک ریسورسز انسٹی ٹیوٹ اس سلسلے میں فعال طور پر خدمات انجام دے گا ۔
پپیتا اپنے سوزش آمیز مرکب 'پاپین' کے لیے مشہور ہے جو جوڑوں کے درد، اکڑن اور انحطاط شدہ ڈسک کے علاج کو کم کرتا ہے۔ ہلدی اور ادرک کو گٹھیا، ہائپرلیپیڈیمیا اور سوزش سے نمٹنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ طاہرہ بیگم گزشتہ تین دہائیوں سے گٹھیا کی مریضہ ہیںکا کہنا ہے کہ اس بیماری سے لڑنے کے لیے میری باقاعدہ دوائی کا ماہانہ بل 20,000 روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ سستی قیمت پر علاج مجھے اور اسی مسئلے سے لڑنے والے دوسرے مریضوں کی مدد کر سکتا ہے۔عالمی آبادی کا تقریبا 1 فیصدگٹھیا میں مبتلا ہے جو ان کے معیار زندگی، معاشی حالات اور کام کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ گٹھیا کی دوا بنانے کے لیے زیادہ تر نمکیات درآمد کی جاتی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ کیمسٹ محمد اجمل نے کہا کہ گٹھیا کے علاج کے لیے مختلف قسم کی دوائیں گولیوں، مرہم، انجیکشن وغیرہ کی شکل میں استعمال کی جاتی ہیں۔ ملک میں ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کی پیداوار کے لیے نمکیات کی درآمد ہے۔ معاشی سائیکل میں عدم استحکام کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاو ان کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ اگر صورتحال کچھ دیر تک ایسی ہی رہی تو ریمیٹائڈ کے مریضوں کے لیے باقاعدہ ادویات کا متحمل ہونا بہت مشکل ہو جائے گا۔ سرکاری اور نجی شعبے کی مشترکہ سرمایہ کاری نہ صرف ملک میں اس صنعت کو ترقی دینے میں آسانی پیدا کرے گی بلکہ کلینکل ٹرائلز کے لیے خاطر خواہ فنڈنگ بھی آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی