- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان کی ترقیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے چینی تجربے سے سیکھنے کی صلاحیت غربت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی،خاتمہ غربت کیلئے چین کی طرز پر دیہی زرعی اصلاحات ناگزیر، چین کی کل دیہی آبادی 1978میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی،پاکستان میں حالیہ سیلاب نے مزید لاکھوں افراد کو انتہائی غربت میں ڈال دیا۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق چین نے گزشتہ دہائیوں کے دوران غربت کے خلاف جنگ میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے اور غربت سے لڑنے والے ممالک اسے ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں معاشیات کے ماہر شجاعت فاروق نے کہا کہ کچھ ترقیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے چینی تجربے سے سیکھنے کی صلاحیت غربت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ سیکھنے کا عمل تب بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب پالیسیوں کو ڈیزائن کرنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ان پر عمل درآمد کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ غربت میں کمی میں چین کی کامیابی میں جن عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں 1970 کی دہائی کے آخر میں دیہی زرعی اصلاحات کا تعارف بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی کل دیہی آبادی 1978میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ 1978 سے 1985 تک دیہی اصلاحات کے پہلے مرحلے کے دوران گھریلو معاہدہ کی ذمہ داری کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ اس نظام نے لاکھوں انفرادی کسانوں کو پیداوار سے منسلک معاوضے کے ساتھ مساوی زمین فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی پیداوار میں تیزی سے اضافہ آمدنی میں اضافے اور دیہی غربت میں کمی کا باعث بنا۔ انہوں نے کہا کہ 1978 اور 1984 کے درمیانی عرصے کے دوران ان اصلاحات سے پوری دیہی آبادی کو فائدہ پہنچا اور دیہی آبادی کی فی کس آمدنی میں 9.6 فیصد فی کس کی شرح سے اضافہ ہوا۔شجاعت فاروق نے کہا کہ دیہی غربت کی آبادی پہلے مرحلے 1986-1993 کے دوران 1985 میں 125 ملین سے کم ہو کر 1993 میں 80 ملین رہ گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے دوسرے مرحلے 1994-2000 میں غربت کے خاتمے کا اپنا منصوبہ شروع کیاجس میں 592 غریب کاونٹیوں کی شناخت کی گئی۔ قومی غریب کاونٹیزجہاں 79 فیصد غریب رہتے تھے مویشیوں کی افزائش، نقد فصل کی کاشت اور مزدوروں کی نقل مکانی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں، 2001 کے آخر تک دیہی غربت کی آبادی کم ہو کر 30 ملین ہو گئی اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آبادی 1978 میں 250 ملین سے کم ہو کر 2001 کے آخر تک 30 ملین رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ ان دو مرحلوں کے دوران عوامی اخراجات کے پیٹرن نے زرعی پیداوار اور دیہی آمدنی دونوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شجاعت نے کہا کہ چین اپنے مضبوط سیاسی عزم اور طاقتور تنظیمی صلاحیتوں کی وجہ سے غربت کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صلاحیتیں میکرو اکنامک استحکام اور غربت کے خاتمے کو یقینی بناتی ہیں، جبکہ مائیکرو لیول پر یہ غریبوں کو بااختیار بناتی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں یکے بعد دیگرے پالیسیاں اور پروگرام بھی شروع کیے گئے لیکن ان پر عمل درآمد ناقص تھا، عوامی اخراجات کم تھے، اور آبادی شرح نمو بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے ملک غربت کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب نے مزید لاکھوں افراد کو انتہائی غربت میں ڈال دیا۔ جدید ٹیکنالوجی کو نہ اپنانے کی وجہ سے زرعی ترقی اور جمود کا شکار پیداوری میں بہت زیادہ تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اس عنصر کی وجہ سے، زیادہ تر غربت دیہی علاقوں میں مرکوز ہے جو زراعت پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیںجن میںجنوبی پنجاب اور دیہی سندھ شامل ہیں۔ چھوٹے کسانوں اور بے زمین گھرانوں کو بااختیار بنانے کے لیے زمینی اصلاحات، لائیو سٹاک کو فروغ دینا، اور ان پٹ کی دستیابی کچھ واضح طریقے ہیں۔ اس کے علاوہ، آبپاشی، زراعت کے اور جسمانی اور انسانی بنیادی دی ڈھانچے میں طویل مدتی عوامی سرمایہ کاری زراعت کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی