- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان کو 2030 تک توانائی کی منتقلی کے لیے کم از کم 101 بلین ڈالر کی ضرورت ہے ۔اس وقت موسمیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے مختلف شعبوں میں 197 ارب ڈالر مالیت کی گرین انرجی کے مواقع دستیاب ہیں،گرین بلڈنگ فنانسنگ میں 90 بلین ڈالر،الیکٹرک گاڑیوں میں 41.7 بلین ڈالر، قابل تجدید توانائی میں 41.5 بلین ڈالر، کلائمیٹ سمارٹ ایگریکلچر میں 10 بلین، کلائمیٹ سمارٹ اربن واٹر میں 7.5 بلین اور میونسپل سالڈ ویسٹ مینجمنٹ میں 6.4 بلین ڈالر کے مواقع موجود،پاکستان مناسب سرمایہ کاری کرکے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے اہم چیلنجوں سے نمٹ سکتا ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق گرین فنانس موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو متحرک کرکے یہ کم کاربن، موسمیاتی لچکدار معیشت کی طرف منتقلی میں مدد، گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے اہم چیلنجوں سے نمٹ سکتا ہے۔انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے مطابق 2030 کے موسمیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف شعبوں میں 197 بلین امریکی ڈالر مالیت کی سبز ترقی کے مواقع دستیاب ہیں۔ممکنہ سرمایہ کاری میں گرین بلڈنگ فنانسنگ میں 90 بلین ڈالر،الیکٹرک گاڑیوں میں 41.7 بلین ڈالر، قابل تجدید توانائی میں 41.5 بلین ڈالر، کلائمیٹ سمارٹ ایگریکلچر میں 10 بلین، کلائمیٹ سمارٹ اربن واٹر میں 7.5 بلین اور میونسپل سالڈ ویسٹ مینجمنٹ میں 6.4 بلین ڈالر شامل ہیں۔سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان میں گرین فنانس کی آمد میں بھی بتدریج اضافہ ہوا ہے۔
اس عمل میں شامل دو سب سے بڑے بین الاقوامی فنڈز گلوبل انوائرمنٹ فیسیلٹی اور گرین کلائمیٹ فنڈ ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ جی ای ایف نے تقریبا 100 ملین ڈالر کے فنڈز فراہم کر کے پاکستان میں 38 منصوبوں کی معاونت کی ہے۔ یہ فی الحال کل 131 ملین ڈالر فراہم کر کے چار منصوبوں میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ موجودہ گرین فنانس فلو ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق یہ سرمایہ کاری پاکستان میں موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے ناکافی ہے۔ 2021 میں اہداف کے مطابق ملک کو 2030 تک توانائی کی منتقلی کے لیے کم از کم 101 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گرین فنانس کا حصول گرین فنانسنگ میکانزم کی ترقی اور نفاذ سے منسلک چیلنجوں پر قابو پانے پر منحصر ہے۔پاکستان جیسی جدوجہد کرنے والی معیشت کے لیے گرین فنانس ایک لائف لائن کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ ترقی کے اہداف کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں میں شراکت کو کم کر سکتا ہے۔پاکستان کو اس محاذ پر نمایاں کوششیں کرنی چاہئیں۔ ملک کی معاشی صورتحال اور ادارہ جاتی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے موثر حکمت عملی یہ ہوگی کہ چھوٹے، حسابی اقدامات کو آگے بڑھایا جائے۔ پاکستان کو اپنے صنعتی، مالیاتی اور قانون سازی کے شعبوں میں ناکامیوں اور چیلنجوں پر قابو پانا چاہیے۔حکومت کو فوسل فیول پر مبنی پاور پلانٹس کو بند کرنے کے لیے ایک ٹھوس حکمت عملی تیار کرنی چاہیے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی نظروں میں ساکھ حاصل کرنے کے لیے توانائی کی منصفانہ منتقلی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرنا چاہیے۔حکومت کو تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر پائیدار ترقی اور گرین فنانس کے حصول سے متعلق تمام شرائط اور تصورات کو واضح طور پر بیان کرنے اور تیار کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ دوسرے مرحلے میں پاکستان میں گرین فنانسنگ میکانزم کے نفاذ کے لیے ایک ٹھوس حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے ۔ اس میں مخصوص رہنما خطوط اور رپورٹنگ کے طریقہ کار کو تیار کرنا اور نافذ کرنا شامل ہونا چاہیے تاکہ بتدریج گرین فنانسنگ ٹولز کے لیے مارکیٹ تیار کی جا سکے۔ رپورٹ نے ماحولیاتی، سماجی، اور گورننس کے اصولوں کو پہلے سے قائم گرین فنانسنگ میکانزم میں شامل کرکے گرین فنانس سے پائیدار فنانس کی طرف ملک کی منتقلی کی سفارش کی کیونکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی اور توانائی کی منتقلی سے مکمل طور پر نمٹنے کے لیے اہم ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی