آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان کو ایک پائیدار زرعی جنگلات کا منصوبہ شروع کرنے کی ضرورت ہے ، ویلتھ پاک

۳ ستمبر، ۲۰۲۲

پاکستان میںپائولونیا درخت اگانے کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کی لکڑی کی عالمی منڈی میںقیمت880 ڈالرفی کیوبک میٹر تک ہے ،ایک ہیکٹر میں 420 پودے بوئے جائیں تو چھ سال کے بعد 280 کیوبک میٹر قیمتی لکڑی جمع کی جا سکتی ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ایک پائیدار زرعی جنگلات کا منصوبہ شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بارشی جنگلات کی لکڑی کا معیاری متبادل فراہم کیا جا سکے۔ عالمی سطح پر تجارت کی جانے والی تقریبا 75 فیصد لکڑی برساتی جنگلات سے آتی ہے جو بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے سکڑ رہے ہیں۔ زرعی جنگلات کو فروغ دینے کے لیے پائولونیا کا درخت لگانا پاکستان کے لیے ایک ترجیحی انتخاب ہو سکتا ہے کیونکہ پائولونیا کی لکڑی کی بین الاقوامی مارکیٹ 650 سے 880 ڈالرفی کیوبک میٹر ہے۔ اس درخت کی 15 سے زائد اقسام دنیا میں پائی جاتی ہیں، جن میں سے کچھ لکڑی اور سجاوٹی دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس کی کچھ ہائبرڈ لکڑی کی قسمیں صرف معیاری لکڑی حاصل کرنے کے لیے اگائی جاتی ہیںاور یہ بہت سے ممالک میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ ڈائریکٹر رینج لینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر اسلام آباد ڈاکٹر محمد عمر فاروق نے ویلتھ پاک کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ پائولونیا ماحول دوست درخت ہے اور اسے ساحلی علاقوں سے لے کر ذیلی ٹراپیکل زونز میں اگایا جا سکتا ہے۔

یہ سخت لکڑی کا درخت سیدھا اوپر کی طرف بڑھتا ہے اور دہن اور دیمک کے حملوں کے خلاف مزاحم ہے۔ اس کی لکڑی وزن میں بہت ہلکی، بے داغ اور انتہائیمضبوط ہوتی ہے۔ یہ کبھی بھی خراب نہیں ہوتا بلکہ ریشمی ہموار رہتا ہے۔ یہ تمام خوبیاں اسے فرنیچر بنانے والوں کا عزیز بناتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درخت لگانے کے 12 سال بعد پائولونیامکمل طور پر پختہ ہو جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسے 1990 میں پاکستان میں تحقیق اور مقامی ماحول سے مطابقت کے لیے لایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس پلانٹ کو بڑے پیمانے پر اگانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے تاکہ نہ صرف ماحول کو بہتر بنایا جا سکے بلکہ کسانوں کو بھی فائدہ پہنچے۔ لاہور کے مضافات پتوکی میں کاویرا کے ٹشو کلچر نرسری فارم کے مالک ندیم احمد خان نے کہاکہ میں نے پائولونیا9501 قسم کا بیج درآمد کیا اور دسمبر 2021 میں اسے اپنے فارم میں بو دیا۔ ایک ہفتے کے اندر 80 فیصد بیجوں کو کنٹرول شیڈ میں اگایا گیا تھا۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد اس کے پودے مناسب جگہ پر پودا بننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ندیم احمد نے بتایا کہ بیج بہت مہنگا ہونے کی وجہ سے اس کے ٹشو کلچر کو سندھ کے علاقے ٹنڈو سومرو میں کیلے کی ٹشو کلچر لیب میں کامیاب آزمایا گیا۔ اب پتوکی کی مقامی لیبارٹری میں کامیاب ٹشو کلچر کے بعد، تقریبا 1,100 پودے بونے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص تھوک میں پودے خریدتا ہے تو وہ 350 روپے فی پودا وصول کرتا ہے ورنہ ایک پودا 500 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ اگر ایک ہیکٹر میں 420 پودے بوئے جائیں تو چھ سال کے بعد 280 کیوبک میٹر یا 9,885 مکعب فٹ عالمی سطح پر قیمتی لکڑی جمع کی جا سکتی ہے۔ ایک مکعب میٹر لکڑی کا وزن 310 کلو گرام ہوتا ہے۔ ندیم احمد نے کہا کہ شہد کی مکھیاں پائولونیاکے پھولوں کا امرت چوسنا بھی پسند کرتی ہیں تاکہ معیاری شہد تیار کیا جا سکے، اگر پولونیا کو ایک ہیکٹر رقبے پر اگایا جائے تو تقریبا 500 کلوگرام شہد اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پائولونیا کاربن ڈائی آکسائیڈ دوسرے درختوں کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ جذب کرتا ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی طور پر اسے وسیع پیمانے پر متعدد اشیا کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن میں سرف بورڈز، جہاز سازی ، ہوا بازی کے اندرونی سامان، فرنیچراورلکڑی کا سامان شامل ہے۔ یہ فرنیچر کے استر اور پوشاکوں کے لیے بھی بہترین ہے۔ ندیم احمد نے کہا کہ محکمہ زراعت اور جنگلات کو اس درخت کی کاشت کو بڑے پیمانے پر فروغ دینا چاہیے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی