- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
قابل تجدید توانائی کے 13 منصوبوں کی منظوری ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ یہ منصوبے، صاف توانائی کی متعدد ٹیکنالوجیز پر محیط ہیں اورپاکستان کے توانائی کے منظر نامے کو تبدیل کرنے اور ایک سرسبز و شاداب مستقبل میں اپنا حصہ ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مورو پاور کمپنی کے ایگزیکٹو آفیسر اورسولر اور ونڈ انرجی کے سینئر ڈویلپر مصطفی عبداللہ نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے ان منصوبوں کی منظوری اہداف کو پورا کرنے کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔صاف توانائی کے ذرائع شمسی، ہوا اور ہائیڈرو کو اپنانے سے پاکستان بتدریج فوسل فیول سے منتقل ہو سکتا ہے ۔ عبداللہ نے کہا کہ ہم موجودہ وقت میں گرین ہاوس گیس کی کمی کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔600 ملین ڈالر کے 13 منصوبوں کی کل صلاحیت 650 میگاواٹ ہے۔ ان کی منظوری قابل تجدید معیشت میں منتقلی کو تیز کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ چونکہ یہ منصوبے صاف توانائی پیدا کرنے میں مدد کریں گے، مینوفیکچرنگ، تعمیرات، آپریشن اور دیکھ بھال میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، جس سے مقامی معیشتوں کو بحال کرنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا۔ یہ منصوبے آر ای پالیسی 2006 کے تحت تیار کیے گئے ہیں اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے منظور کیے ہیں۔
حال ہی میں وفاقی حکومت نے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے حتمی گرین سگنل دے دیا ہے۔ ایک توانائی کے ذریعہ پر انحصار کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ مختلف قسم کے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی منظوری دے کرہم کسی ایک ٹیکنالوجی پر زیادہ بوجھ ڈالے بغیر توانائی کی مستقل فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے ایک زیادہ لچکدار توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو فعال کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ چھوٹے پیمانے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے اور مقامی توانائی کوآپریٹیو کو سپورٹ کرکے ہم دور دراز کے علاقوں میں توانائی کی رسائی کو بہتر بنا سکتے ہیں، توانائی کی غربت کو کم کر سکتے ہیںاور سب کے لیے توانائی کے تحفظ کو بڑھا سکتے ہیں۔ عبداللہ نے کہا کہ ان منصوبوں کی منظوری سے قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز میں مزید کامیابیاں حاصل ہونے کی توقع ہے کیونکہ صاف توانائی کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور تحقیق کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان منظور شدہ منصوبوں کے اثرات صاف توانائی کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہیں۔ پائیدار ترقی کے اہداف جیسے غربت میں کمی، صحت کو بہتر بنانا، اور تعلیم کی فراہمی کو قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر سپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں گرین انفراسٹرکچر کی موجودگی پائیدار سرمایہ کاری کو راغب کر سکتی ہے اور معاشی نمو کو فروغ دے سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ توانائی کے موجودہ بحران اور موجودہ معاشی حالات میں توانائی کے یہ منصوبے اختتامی صارفین کے لیے بجلی کا ایک سستا ذریعہ شاذریعہ شامل کر کے بجلی کے شارٹ فال کو تیز رفتار بنیادوں پر پورا کرنے میں مدد کریں گے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی