- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان میں غذائی قلت 8.7 فیصد تک پہنچ گئی، آبادی میں بے قابو اضافہ غذائی تحفظ کو متاثر کر رہا ہے،آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہونے کے ناطے ملک کو غذائی عدم تحفظ کے بارے میں سنگین خدشات کا سامنا،تعمیرات سے زرخیز زمین ختم ہونے لگی، گزشتہ آٹھ سالوں میں 17 ملین افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو زرعی شعبے کو جدید بنانے اور خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہونے کے ناطے مختلف وجوہات کی بنا پر غذائی عدم تحفظ کے بارے میں سنگین خدشات کا سامنا کرتا ہے۔ 220 ملین سے زائد آبادی کے ساتھ لوگوں کو کھانا فراہم کرنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی محدود وسائل پر دبا وڈالتی ہے اور خوراک کی طلب پیدا کرتی ہے جو سپلائی سے زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں غذائی عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے جو پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک بڑی تشویش ہے۔کسی ملک کا غذائی تحفظ خوراک کی دستیابی اور استعمال پر منحصر ہے۔ پاکستان میں آبادی میں بے قابو اضافہ غذائی تحفظ کے تینوں پہلوں کو متاثر کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب ہے کہ رہائش اور زراعت کے لیے زیادہ زمین کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں زرخیز زمین ختم ہو جاتی ہے اور خوراک کی پیداوار کے لیے دستیاب رقبہ کم ہو جاتا ہے۔
اس سے خوراک کی پیداوار میں کمی اور بازار میں خوراک کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ کھانے کی زیادہ مانگ قیمتوں کو بھی بڑھاتی ہے جس سے غریب اور کمزور آبادی کے لیے خوراک تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ زراعت کے لیے مناسب انفراسٹرکچر اور وسائل کی کمی، پانی اور کھاد بھی پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مناسب مقدار میں خوراک پیدا کرنے کے لیے ضروری وسائل تک رسائی نہیں ہے۔عالمی بینک کے مطابق سپلائی چین میں رکاوٹ کے نتیجے میں 2022 میں 345 ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال کافی تشویشناک ہے کیونکہ کل آبادی میں غذائی قلت کا پھیلاو 17 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو 2014 میں 1 فیصد سے بڑھ کر 8.7 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں 17 ملین افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔جب تک پاکستان میں غذائی تحفظ نہ ہو قومی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ڈاکٹر سلہری نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں اصلاحات اور جدید کاری کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ حکومت کو ایسی پالیسیاں نافذ کرنی چاہئیں جن کا مقصد آبادی میں اضافہ کم کرنا ہے۔ یہ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں اور عام آبادی کو تولیدی صحت کے بارے میں تعلیم دینے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اس میں نئی ٹیکنالوجیز کی ترقی کے لیے مدد فراہم کرنا، کریڈٹ اور دیگر وسائل تک رسائی فراہم کرنا اور سامان کی نقل و حمل کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری شامل ہو سکتی ہے۔ زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کر کے حکومت خوراک کی مجموعی فراہمی کو بڑھانے اور غذائی تحفظ کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے پائیدارزراعت کے طریقوں کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس میں فصلوں کی گردش، انٹرکراپنگ، اور نامیاتی کھادوں کے استعمال جیسے عمل کو نافذ کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ ان طریقوں سے نہ صرف خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وسائل کے تحفظ میں بھی مدد ملتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی