آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں توانائی سیکٹر، زراعت اور لائیوسٹاک کا حصہ 90 فیصد سے زائد

۷ مارچ، ۲۰۲۳

کاربن ٹیکس پاکستان کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور آمدنی بڑھانے کے لیے غیر قابل تجدید سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقل کرنے میں نمایاں مدد کر سکتا ہے، پاکستان میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں توانائی سیکٹر، زراعت اور لائیوسٹاک کا حصہ 90 فیصد سے زیادہ ہے،پاکستان نے 2030 تک اپنے متوقع اخراج کو مجموعی طور پر 50فیصدتک کم کرنے کے اہداف مقرر کیے ہیں،سب سے زیادہ کاربن کا اخراج سندھ سے ہو رہا ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق کاربن ٹیکس پاکستان کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور آمدنی بڑھانے کے لیے غیر قابل تجدید سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقل کرنے میں نمایاں مدد کر سکتا ہے۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلیری نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بارے میں مختلف طریقے سے سوچنا شروع کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح توانائی اور کاربن ٹیکس غیر قابل تجدید سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف ہماری تبدیلی میں مدد کر سکتے ہیں۔ کاربن ٹیکس کے نفاذ سے پاکستان میں فوسل فیول کے استعمال کو کم کرنے میں ممکنہ طور پر مدد مل سکتی ہے۔فوسیل ایندھن کو مزید مہنگا بنانا اور کاربن ٹیکس متعارف کرانے سے افراد اور کاروباری اداروں کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع تلاش کرنے کی ترغیب ملے گی۔ اس سے بالآخر کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی تلخ حقیقت کا سامنا کر رہا ہے جب کہ شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب اور خشک سالی کے بار بار ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس اہم مسئلے کو نظر انداز کرنے کی اقتصادی قیمت حکومت کے لیے نظر انداز کرنے کے لیے بہت زیادہ تھی کیونکہ پاکستان گزشتہ سال موسمِ بہار میں داخل ہوئے بغیر موسم گرما میں داخل ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال کی نزاکت کے لیے پائیدار طرز زندگی اور حکومت کے اقدامات کے لیے تعاون دونوں کی ضرورت ہے۔چین شمسی اور ہوا کی توانائی جیسی پائیدار ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور بڑھانے کی ایک متاثر کن مثال پیش کرتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں پر خصوصی زور دیتے ہوئے اس صلاحیت کو مزید تلاش کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو چین کی کامیابی سے سبق سیکھنا چاہیے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اسی طرح کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل کو سنجیدگی سے لے اور پائیدار ترقی کو ترجیح دے۔ انہوں نے کہا کہ صحیح پالیسیوں اور سرمایہ کاری کے ساتھ ہم ایک فرق لا سکتے ہیں اور اپنے لیے ایک روشن مستقبل بنا سکتے ہیں۔اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق کاربن ٹیکس گرین ہاوس گیسوں کے اخراج خاص طور پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں ایک اہم عنصر ہے۔ پاکستان میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں توانائی کے شعبے، زراعت اور لائیوسٹاک کا حصہ 90 فیصد سے زیادہ ہے۔

اگرچہ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہ انتہائی غیر محفوظ ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان نے 2030 تک اپنے متوقع اخراج کو مجموعی طور پر 50فیصدتک کم کرنے کے لیے پرجوش اہداف مقرر کیے ہیں۔ سب سے زیادہ کاربن کا اخراج سندھ سے ہو رہا ہے اس کے بعد پنجاب، کے پی اور بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔ سندھ کا کاربن کا اخراج پاکستان کے کل اخراج کا 54 فیصد ہے جب کہ پنجاب کا 27 فیصد اور خیبر پختونخوا کا توانائی کا شعبہ 11فیصدکاربن اخراج پیدا کرتا ہے جب کہ بلوچستان کا صرف 7فیصدحصہ ہے۔ حکومت کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدام اٹھانا چاہیے کیونکہ کاربن ٹیکس سے اخراج میں 3 فیصد تک کمی اور پنجاب میں آمدنی میں 3 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم بلوچستان میں کاربن کے کم اخراج کی وجہ سے آمدنی میں صرف 1 فیصد اضافہ ہوگا جب کہ 8 ڈالر کاربن ٹیکس کے نفاذ سے اخراج میں 0.5 فیصد کمی ہوگی۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی