- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان میں مونگ پھلی کا کاشت کا رقبہ ڈیڑھ لاکھ ہیکٹر ، کل پیداوار ایک لاکھ چالیس ہزارمیٹرک ٹن اور اوسط پیداوار 0.93 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے،مونگ پھلی کی پیداوار میں خود کفالت خوردنی تیل کی درآمدات کو کم کرسکتی ہے،مونگ پھلی کے بیج میں 50فیصدتیل ہوتا ہے،پاکستان میں مونگ پھلی کے تیل کے لیے کمرشل آئل پروڈکشن یونٹس کی عدم موجودگی،حکومت نے مونگ پھلی کے تیل کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے تحقیق اور ترقی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق مونگ پھلی کی پیداوار میں خود کفالت ہمارے خوردنی تیل کی درآمدات کو کم کرنے کا ایک حل ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے سالانہ بڑے زرمبادلہ کا استعمال ہوتا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس میں تیل کے بیجوں کی پیداوار کے وسیع امکانات ہیں، اس کے باوجود وہ ملکی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنے خوردنی تیل کا 80 سے 90 فیصد بیرونی ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ درآمدات پر انحصار نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ کے نمایاں اخراج کا باعث بنتا ہے بلکہ ملک کو عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاو اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کا شکار بنا دیتا ہے۔ قومی زرعی تحقیقی مرکز کے پرنسپل سائنٹیفک آفیسر نزاکت نواز نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مونگ پھلی کی مقامی پیداوار میں اضافہ کر کے پاکستان اپنے درآمدی بل کو کم کر سکتا ہے اور غذائی تحفظ کو بہتر بنا سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مونگ پھلی کے بیج میں 50فیصدتیل ہوتا ہے۔ یہ پوری دنیا میں ایک بہت اہم تیل ہے اور اس کی پیداوار ان ممالک کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے جو درآمد شدہ خوردنی تیل پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مونگ پھلی کی پیداوار میں خود کفیل ہونے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔ریاستہائے متحدہ کے محکمہ زراعت کے اعدادوشمار کے مطابق 2022/23 میں پاکستان میں مونگ پھلی کا کاشت کا رقبہ تقریبا 150,000 ہیکٹر ہے جس کی کل پیداوار 140,000 میٹرک ٹن ہے اور اوسط پیداوار تقریبا 0.93 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ اس قدر نسبتا کم پیداوار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔مونگ پھلی کے تیل کے صحت کے لیے بہت سے فوائد ہیں لیکن پاکستان میں مونگ پھلی کے تیل کی تجارتی پیمانے پر پیداوار نہیں ہے اور زیادہ تر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اسے خوردنی تیل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں تیل کی پیداوار کے لیے اس فصل کو تلاش کرنا چاہیے۔مونگ پھلی کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے زرعی شعبے کی پیداواریت اور کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ ٹیکنالوجی تک رسائی کو بہتر بنانا، آبپاشی کی بہتر سہولیات فراہم کرنا اور زرعی شعبے میں تحقیق اور ترقی کو بڑھاکر حا صل کیا جاسکتا ہے۔پاکستان میں مونگ پھلی کے تیل کے لیے کمرشل آئل پروڈکشن یونٹس کی عدم موجودگی کی بنیادی وجہ اس شعبے میں تحقیق اور ترقی کا فقدان ہے۔ حکومت نے مونگ پھلی کے تیل کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے تحقیق اور ترقی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔
کاشتکار مونگ پھلی اگانے کے فوائد سے واقف نہیں ہیںاور صنعت ترقی نہیں کر پائی ہے۔حکومت کو مونگ پھلی کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اس میں مونگ پھلی کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی ترقی، کاشتکاری کی جدید تکنیکوں کا استعمال اور خوراک کی صنعت میں مونگ پھلی کے تیل کے استعمال کو فروغ دینا شامل ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر کسانوں کے پاس چھوٹی زمینیں ہیںجس کی وجہ سے ان کے لیے تیل کی پیداوار کے لیے درکار ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔مونگ پھلی کے تیل کی پیداوار میں کمی کی ایک اور وجہ پروسیسنگ کی سہولیات کی عدم موجودگی ہے۔ کسانوں کو اپنی فصلیں کم قیمت پر بیچنی پڑتی ہیںجس کے نتیجے میں ان کی آمدنی کا نقصان ہوتا ہے۔حکومت کو ملک میں تیل کے تجارتی یونٹس کے قیام کو فروغ دینا چاہیے۔ اس طرح کے یونٹوں کے قیام کے لیے ٹیکس میں چھوٹ، کم سود پر قرضے اور سبسڈی جیسی مراعات فراہم کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کسانوں کو تکنیکی مدد بھی فراہم کر سکتی ہے تاکہ وہ اپنے تیل کی پیداوار کے یونٹ قائم کر سکیں۔ حکومت کو پروسیسنگ کی سہولیات کی ترقی میںسرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ ہمارے کسان اپنی فصلوں کو مقامی طور پر پروسیس کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں کسانوں کے لیے قیمتیں زیادہ ہوں گی اور پروسیسنگ انڈسٹری میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور درآمد شدہ خوردنی تیل پر ملک کا انحصار کم ہو جائے گا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی