- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستان میں سالانہ 2.32 ملین میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے ،پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن پبلک پرائیویٹ سیکٹر پارٹنرشپ میکنزم کے تحت خیبر پختونخوا کی تین یونیورسٹیوں کو سولرائز کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اورپائلٹ بنیادوں پریونیورسٹی آف بونیر، یونیورسٹی آف ملاکنڈ اور یونیورسٹی آف کوہاٹ کو سولرائز کیا جائے گا۔ بعد کے مراحل میںدیگر سرکاری اداروں کو شمسی توانائی پر لگایا جائے گا۔پیڈوکے پراجیکٹ ڈائریکٹر سولرائزیشن اسفندیار خان نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی توانائی کے ترقیاتی ادارے نے خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں اور طبی تدریسی اداروں کو سولرائز کرنے کے لیے پالیسی تیار کی ہے۔ انرجی سروس کمپنی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے جو ایک نجی شعبے کا ادارہ ہے ،یہ ماڈل نہ صرف اربوں روپے کی بچت میں مدد دے گا بلکہ ماحول دوست توانائی میں خود کفالت کو یقینی بنائے گا، روزگار کے مواقع پیدا کرے گا اور صوبے میں سماجی ترقی میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے اقدام کا مقصد اعلی تعلیمی اداروں کو سستی اور بلاتعطل بجلی کی فراہمی ہے۔
چونکہ بجلی کے بل یونیورسٹیوں کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ ہیں، اس لیے انہیں شمسی توانائی میں تبدیل کرنا بہترین سرمایہ کاری کا حل ہوگا۔اسفندیار خان نے کہا کہ ایسکوشمسی فوٹو وولٹک گرڈز کی تعمیر، ملکیت اور آپریٹ کرے گا۔ نیشنل ایفیشینسی انرجی کنزرویشن اتھارٹی کے منظور شدہ گائیڈ لائنز پر عمل درآمد کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سولرائزیشن پراجیکٹ کو پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے مکمل طور پر فنڈز فراہم کیے جائیں گے، اس لیے اس سے صوبائی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ اعلی تعلیمی اداروں کو اس منصوبے کے تحت پائیدار، صاف اور سستی بجلی ملے گی۔توانائی کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں قابل تجدید ذرائع کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اقتصادی استحکام اور بچت کے لیے بجلی کی پیداوار کے متبادل طریقوں کی طرف منتقل ہو جائے کیونکہ جیواشم ایندھن کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کو قومی پاور مکس میں صاف توانائی کے حصے کو بڑھانے کے لیے چھوٹے پیمانے پر قابل تجدید توانائی کے گرڈز تعمیر کرنے چاہئیں۔ پاکستان میں سالانہ 2.32 ملین میگاواٹ سے زیادہ شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی