آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان مصنوعی ریشہ سے تیار کردہ ملبوسات برآمد کرنے کے مواقع ضائع کر رہا ہے

۲۴ اکتوبر، ۲۰۲۲

عالمی مانگ میں اضافے کے باوجود پاکستان مصنوعی ریشہ سے تیار کردہ ملبوسات برآمد کرنے کے مواقع ضائع کر رہا ہے،مصنوعی ریشوں پر 10 سے 25 فیصد کی درآمدی ڈیوٹی عائد ہے،گھریلو صنعتیںکو کپاس سے مصنوعی فائبر پر منتقل کرنے کیلئے مصنوعی ریشوں پر ٹیرف کو کم کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان کی درآمدی مصنوعات پر 1,623 ٹیرف لائنز ہیں۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق مقامی کمپنیوں اور غیر ملکی فرموں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت اور ٹیرف میں کمی کے ساتھ مقامی فرموں کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کی سینئر ریسرچ اکانومسٹ ڈاکٹر عظمی ضیا نے ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان صنعتوں کو ترقی دے کر خود کفیل بن سکتا ہے جس سے برآمدات اور معاشی نمو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مسابقتی درآمدات کی حوصلہ شکنی اور گھریلو صنعت کے تحفظ کے لیے ٹیرف کا استعمال کرتی ہے جو درآمد شدہ مصنوعات کو مقامی طور پر تیار کردہ سامان سے زیادہ مہنگا بنا دیتا ہے۔ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مصنوعات پر 1,623 ٹیرف لائنز ہیں جن میں سے 587 اشیائے خوردونوش کے خام مال سے 189 کیپٹل گڈز کے خام مال سے484 کیپٹل فوڈز سے اور 122 دیگر خدمات پر ہیں۔ پاکستان کی معیشت کیپٹل گڈز کے بجائے اشیائے صرف پر مبنی ہے اور ٹیرف ریشنلائزیشن صارفین کے سامان کے خام مال پر مرکوز ہے۔

کیپٹل گڈز کے لیے خام مال کی درآمدات کم سے کم ہیں جو کہ مقامی مارکیٹ میں صلاحیت کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ٹی ڈی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ٹیرف کی معقولیت کیپٹل گڈز کے خام مال پر توجہ مرکوز کر سکتی ہے کیونکہ برآمدات میں اضافے کے لیے اشیائے ضروریہ کی پیداوار سے کیپٹل گڈز کی پیداوار میں منتقل ہونا ضروری ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ مصنوعی فائبر سے متعلق ٹیرف کو بھی معقول بنایا جانا چاہیے۔ دنیا مصنوعی ریشوں سے تیار کردہ ملبوسات کی طرف بڑھ رہی ہے جب کہ گھریلو ٹیکسٹائل کی صنعت کاٹن پر مبنی ملبوسات پر منحصر ہے۔ مصنوعی ریشوں پر 10 سے 25 فیصد کی درآمدی ڈیوٹی عائد ہوتی ہے۔پاکستان مصنوعی ریشہ سے تیار کردہ ملبوسات برآمد کرنے کے مواقع کو ترک کر رہا ہے کیونکہ عالمی مانگ بڑھ رہی ہے اور کپاس پر مبنی ملبوسات کی مانگ کم ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ مصنوعی ریشوں پر ٹیرف کو کم کیا جائے تاکہ گھریلو صنعتیں کپاس سے مصنوعی فائبر پر منتقل ہو سکیں۔رپورٹ کے مطابق درآمدی محصولات کو کم کیا جانا چاہیے اور ملکی پروڈیوسرز کو بین الاقوامی پروڈیوسرز کے ساتھ مقابلہ کرنے اور برآمدی منڈی تک پہنچنے کے قابل بنانا چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ان پٹ ٹیرف کو کم کرنا جبکہ حتمی اشیا پر ٹیرف کو زیادہ رکھنا برآمدات مخالف تعصب کو متعارف کرواتا ہے جو بالآخر کم پیداواری نمو کا باعث بنتا ہے۔ ان پٹ پر درآمدی ٹیرف میں کمی اچھی بات ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے حتمی سامان پر بھی کم کیا جانا چاہیے۔ٹیرف اور دیگر درآمدی محصولات وسائل کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ٹیرف، ریگولیٹری ڈیوٹی اور اضافی کسٹم ڈیوٹی میں تبدیلیوں کے غیر ارادی نتائج سے بچنے کے لیے نیشنل ٹیرف بورڈ کو ایک سادہ ٹیرف ڈھانچہ کا پابند کرنا چاہیے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی