- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پاکستانی ہر سال 60کروڑ ڈالر کی 25کروڑ کلو چائے پی جاتے ہیں،چائے کی کاشت کیلئے ملک میں ایک لاکھ 58ہزار ایکڑ رقبہ موجود،شنکیاری ٹی گارڈنز میں جدیدپروسیسنگ اور تحقیق کا عمل جاری،چائے کے پودے 100 سال تک پیداوار دیتے ہیں،پہلی پیداوار سات سال میں،مانسہرہ، بٹگرام اور مالاکنڈ چائے کی کاشت کیلئے موزوں ترین علاقے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق چائے کی درآمد پر پاکستان کا ہر سال بہت زیادہ زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ 250 ملین کلوگرام چائے سالانہ درآمد کی جاتی ہے جس پر سرکاری خزانے کو تقریبا 600 ملین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پرنسپل سائنٹیفک آفیسر نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ شنکیاری، مانسہرہ ڈاکٹر فیاض احمدنے ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا انسٹی ٹیوٹ 50 ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے جن میں سے 35 چائے کے باغات کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ادارہ چائے کی کاشت پر تحقیق کر رہا ہے اور کالی اور سبز چائے دونوں کے لیے یونٹ دستیاب ہیںلیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پیداواری رقبے میں اضافہ کریںکیونکہ ہمارے پاس چائے کی کاشت کے لیے زیادہ موزوں زمینیں ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریبا 158000 ایکڑ رقبہ چائے کی کاشت کے لیے موجود ہے۔
اگراس میں جنگلات کے رقبے کو شامل کر لیا جائے تو 180,000 ایکڑ رقبے پر چائے کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ چونکہ اسے ایک مخصوص آب و ہوا کی ضرورت ہے توہمارے پاس مانسہرہ، بٹگرام اور مالاکنڈ جیسے مقامات ہیں جو چائے کی کاشت کے لیے بہترین ہیں۔ مانسہرہ میں کافی زمین ہے جو چائے اگانے کے لیے مثالی ہے اور کاشت کے لیے دستیاب ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ سوات اور اس سے آگے جاتے رہیں تو مزیدایسے علاقے موجود ہیںلیکن کسان چائے کے پودے کاشت کرنے سے گریز کر رہے ہیںکیونکہ چائے کے باغات بہت زیادہ مسائل کا باعث بن رہے ہیں اور عام کسان سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مقامی کسانوں کو چائے کے پودے کاشت کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن ہمارے پاس زیادہ فارم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چائے کی پیداوار کے عمل میں چھ سے سات سال لگتے ہیں، کسان اتنا زیادہ انتظار نہیں کر سکتے ۔تاہم اگر کسان چائے کا پودا لگاتے ہیں تو پانچ سال کے بعد انہیں زیادہ فوائد حاصل ہوں گے کیونکہ چائے کے پودے 100 سال تک پیداوار دیتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تجویز دی کہ حکومت مداخلت کرے اور چائے کے پودے بڑے پیمانے پر لگائے جہاں جنگل کی زمین موزوں ہو۔ وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے اپنے دورہ شنکیاری کے دوران غیر ملکی زرمبادلہ کو بچانے کے لیے چائے کی مقامی پیداوار کی ضرورت پر بھی زور دیاہے۔ انہوں نے کہا کہ چائے کی کاشت کے لیے ایک مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جس میں تیزابی مٹی شامل ہوکیونکہ اس کی نشوونما کے تقاضے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم پنجاب میں الکلین مٹی کی وجہ سے چائے نہیں لگا سکتے۔انہوں نے مزید کہاکہ چائے کے لیے زیادہ درجہ حرارت کے بجائے درمیانہ درجہ حرارت کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی بہترین حد 13 ڈگری سے 35 ڈگری ہے۔انہوں نے کہا کہ چینی چائے کی اقسام ہمارے ماحول کے مطابق ہوتی ہیں اس لیے ہم انہیں چین سے درآمد کرتے ہیں، ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ ہمیں تجارتی پیمانے پرچائے کی پیداوار کے لیے اسے کمرشلائز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے پاس کچھ ان پٹ موجود ہیں ۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی