- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
پنجاب کے 27 اضلاع کے لیے فصل بیمہ سکیم شروع،سکیم کے تحت کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور ٹڈی دل کے حملوں کا معاوضہ دیا جائے گا،انشورنس کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے آن لائن نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق فصلوں کا بیمہ کاشتکاروں بالخصوص چھوٹے زمینداروں کو قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات سے تحفظ فراہم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے ااور نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت کو فصل بیمہ کے اقدامات کے لیے اندراج کرنا چاہیے۔ ہیڈ آف انوویشن اینڈ انٹیگریشن، پاکستان پاور ایلیویشن فنڈخان عباسی نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہاکہ فصل کی انشورنس کاشتکاروں کو قدرتی آفات سیلاب، خشک سالی اور ٹڈی دل کے حملوں سے ہونے والے فصلوں کے نقصانات کے خلاف مالی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ بیمہ ان فصلوں کی لاگت کا احاطہ کرتا ہے جو قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں۔ یہ کسانوں کے لیے ایک حفاظتی جال فراہم کرتا ہے جو بصورت دیگر اہم مالی نقصانات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کاشتکار برادری کی بقا کے لیے فصلوں کا بیمہ ضروری ہے کیونکہ قدرتی آفت کے وقت کسانوں کو اکثر مدد کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا جاتا ہے۔ فصل بیمہ کے لیے اندراج کروا کرکسان اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ فصل کے نقصان کی صورت میں انہیں مالی تحفظ حاصل ہو۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے فصلوں کے بیمہ کے مختلف پروگرام شروع کیے ہیں۔ یہ اقدامات گندم، کپاس، گنا اور چاول سمیت متعدد فصلوں کے لیے کوریج فراہم کرتے ہیں۔
جو کسان ان پروگراموں کے لیے رجسٹر ہوتے ہیں وہ ایک چھوٹا پریمیم ادا کرتے ہیںجس کا حساب ان کی فصلوں کی قیمت کے حساب سے لگایا جاتا ہے۔زرعی انشورنس کے معاملے میں پاکستان باقی دنیا سے کافی پیچھے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے کسان زرعی انشورنس کو مالی تحفظ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بڑی حد تک ایک زرعی ملک ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا انحصار کاشتکاری پر ہے۔ تاہم بدقسمتی سے قدرتی آفات کی وجہ سے کسانوں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑااور اکثر ان کی تلافی نہیں کی گئی۔ حکومت پنجاب کے محکمہ زراعت نے گندم، کینولا، سورج مکھی، کپاس اور دھان کی فصلیں لگانے والے کاشتکاروں سے کہا ہے کہ وہ صوبے کے کراپ انشورنس پروگرام تکافل کے لیے رجسٹر کریںجس میں ربیع 2022-23 کا احاطہ کیا جائے گا۔ یہ سہولت 27 اضلاع کے کسانوں کے لیے لاگو ہے جن میں شیخوپورہ، ساہیوال، لودھراں، رحیم یار خان، فیصل آباد، ملتان، مظفر گڑھ، نارووال، بکھر، ڈیرہ غازی خان، قصور، خانیوال، لیہ، منڈی بہاالدین، بہاولپور، اوکاڑہ، وہاڑی، خوشاب، جھنگ، چنیوٹ، پاکپتن، ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرگودھا، میانوالی اور حافظ آباد شامل ہیں۔ سکیم کے تحت کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور ٹڈی دل کے حملوں کا معاوضہ دیا جائے گا۔ انشورنس کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک آن لائن نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22 فیصد ہے۔ ملک میں 37فیصدسے زیادہ افرادی قوت زراعت کے شعبے سے منسلک ہے ۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی