- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
گردشی قرضہ550 ارب روپے تک پہنچ گیا،ہر ماہ 5 ارب روپے کا اضافہ،ٹیوب ویل چلانے کے لیے بجلی کے غیر قانونی کنکشنز کا استعمال معاشی نقصان کا باعث،پاکستان پن بجلی، ہوا، شمسی اور بایوماس جیسی قابل تجدید توانائی کی پیداوار کی وسیع صلاحیت کو بروئے کار لا کر بڑے پیمانے پر اپنے اخراجات کو کم کر سکتا ہے،قابل تجدید توانائی کے 600 ملین ڈالر کے 13 منصوبے وزارت توانائی کے پاس منظوری کے لیے زیر التوا ہیں، بجلی کی ناکافی پیداوار نے گردشی قرضے کا مسئلہ مزید بڑھا دیا ،پاکستان میں توانائی کی طلب میں سالانہ 9 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پن بجلی، ہوا، شمسی اور بایوماس جیسی قابل تجدید توانائی کی پیداوار کی اپنی وسیع صلاحیت کو بروئے کار لا کر بڑے پیمانے پر اپنے اخراجات کو کم کر سکتا ہے۔خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں ٹیوب ویل چلانے کے لیے بجلی کے غیر قانونی کنکشنز کا استعمال بہت زیادہ معاشی نقصان کا باعث بن رہا ہے اور ہر گزرتے ماہ کے ساتھ گردشی قرضے میں تقریبا 5 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے جو پہلے ہی 550 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بجلی کو یہ حقیقت بتائی ہے کہ صوبہ بلوچستان میں بجلی کی فراہمی ناکافی ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو بجلی کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ آبپاشی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسان بجلی کے غیر قانونی کنکشن پر ٹیوب ویل چلا رہے ہیں
۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے توانائی کے ماہر مصطفی عبداللہ نے کہا کہ توانائی کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے شمسی توانائی پر خصوصی توجہ کے ساتھ قابل تجدید توانائی کے موجودہ وسائل سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے۔شمسی توانائی ان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسابقتی قیمت والی ٹیکنالوجی کے طور پر ابھری ہے۔عبداللہ نے قابل تجدید توانائی کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے سرکاری اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قابل تجدید توانائی کے 600 ملین ڈالر کے 13 منصوبے وزارت توانائی کے پاس منظوری کے لیے زیر التوا ہیں۔ منظوری کے بعد یہ منصوبے 650 میگاواٹ توانائی پیدا کریں گے۔عبداللہ نے کہا کہ بجلی کی ناکافی پیداوار نے گردشی قرضے کا مسئلہ مزید بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جب بجلی پیدا کرنے والوں کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بروقت ادائیگیاں نہیں ملتی ہیں تو گردشی قرضوں میں اضافہ ہوتاہے جس سے بجلی کی پیداوار کے لیے فنڈز کی کمی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جو پہلے ہی بڑے مالیاتی خسارے اور سست معیشت کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی کمی کا مسئلہ نہ صرف افراد کی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ مجموعی اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ ہے۔پاکستان میں توانائی کی طلب میں سالانہ 9 فیصد اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ 2030 تک آٹھ گنا اور 2050 تک 20 گنا بڑھ جائے گی۔شمسی توانائی کے شعبے میں عالمی رہنما چین نے حالیہ برسوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چین نے 2022 میں ریکارڈ 87.41گیگاواٹ شمسی توانائی کی تنصیب کی۔ پاکستان چین کی مثال پر عمل کرتے ہوئے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بڑی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی