آئی این پی ویلتھ پی کے

رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ پاکستان میں کامیاب ماڈل ثابت ہو سکتا ہے، ویلتھ پاک

۱۹ جون، ۲۰۲۳

رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ پاکستان میں کامیاب ماڈل ثابت ہو سکتا ہے، ٹرسٹ کے حصص کو اسٹاک مارکیٹ میں فلوٹ کرکے خاطر خواہ منافع کمایا جا سکتا ہے،کوئی فرد بھی اس نظام کے تحت آسانی سے کسی خاص رئیل اسٹیٹ کا شیئر ہولڈر بن سکتا ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج ٹاورز مینجمنٹ کمپنی کے چیئرمین زاہد لطیف خان نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ ایک محفوظ نظام ہے جو کافی منافع کی پیشکش کرتا ہے۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے بڑے پیمانے پر منافع کمانے کے لیے اس سسٹم کو فروغ دینا ضروری ہے جس کے حصص کو اسٹاک مارکیٹ میں فلوٹ کرکے خاطر خواہ منافع کمایا جا سکتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی دعوت دے کر پاکستان بھاری زرمبادلہ کما سکتا ہے۔یہ نظام افراد کو بڑے پیمانے پر آمدنی پیدا کرنے والی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ یورپ اور شمالی امریکہ میں رائج ایک کامیاب ماڈل ہے۔ اگرچہ پاکستان میں، لوگ اس تصور سے بخوبی واقف نہیں ہیں لیکن یہ آہستہ آہستہ مقبول ہو رہا ہے۔یہاں بہت ساری ریگولیٹری پابندیاں ہیں جو سرمایہ کاروں کے لیے لائسنس حاصل کرنا مشکل بنا رہی ہیں۔ تاہم نظام کے ضوابط اور قوانین میں بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں۔ ایس ای سی پی نے رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ اسکیموں کو شروع کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کئی سرمایہ کار کمپنیوں نے ایس ای سی پی کو لائسنس کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اسکیمیں یونٹ سسٹمز پر مبنی ہیں اور ایک یونٹ کی قیمت تقریبا 5000 ہوسکتی ہے۔ اسکیم میں حصہ لے کرکوئی شخص جیب کی گنجائش کے مطابق کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ یونٹ خرید سکتا ہے۔ لیکن خریدی گئی اکائیوں کے خلاف، کوئی بھی اس نظام کے تحت آسانی سے کسی خاص رئیل اسٹیٹ کا شیئر ہولڈر بن سکتا ہے۔ اگر کیپٹل گین کا 90فیصدحصہ داروں میں تقسیم کیا جائے تو اس پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ لوگوں کو اس منظم شعبے کی طرف لانے کے لیے یہ ترغیب بہت منافع بخش ہے۔چونکہ قیمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں اس لیے ایک عام آدمی کے لیے رئیل اسٹیٹ خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ مناسب توجہ اور آگاہی مہم کے ذریعے رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ پاکستان میں ایک کامیاب ماڈل ثابت ہو سکتا ہے۔ کراچی میں ڈولمینز مال کے نام سے اسٹاک ایکسچینج میں ایک اسکیم درج ہے۔ سال 2016 میں اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج ،لاہور اسٹاک ایکسچینج اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کے انضمام کے نتیجے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا قیام عمل میں آیا۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی مزید گھروں اور تجارتی علاقوں کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ حکومت کے لیے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے تحفظ کے تحت رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ اسکیموں کو سپورٹ کرنا ضروری ہے۔ اس سے سرمایہ کاروں کو مزید اعتماد ملے گا۔اس شعبے کی ترقی سے بہت زیادہ آمدنی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ کارکردگی کے لحاظ سے یہ سرمایہ کاری کے لیے کافی محفوظ نظام ہے۔ ان اسکیموں کے معاملے میںپروجیکٹ کا ٹائٹل اور رقم ٹرسٹی کو جاتی ہے۔ چونکہ اس نظام میں عوام کا پیسہ شامل ہے، ایس ای سی پی اس کی نگرانی کرتا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی