آئی این پی ویلتھ پی کے

ریشم کی زراعت میں سات لاکھ خاندانوں کے لیے آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت

۲ نومبر، ۲۰۲۲

پاکستان سالانہ 67 ارب روپے کا ریشم درآمد کرتا ہے،ریشم کی زراعت میں سات لاکھ خاندانوں کے لیے آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت،چھانگا مانگا میں ریشم کی پیداوار کے لیے 4 ہزارتربیت یافتہ خاندان موجود،ایک خاندان آسانی سے سالانہ 150 کلو گرام ریشم بنا سکتا ہے،یونیورسٹیوں کو ریشم کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے لیے سیری کلچر میں تحقیق کرنے کی ضرورت۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو ریشم کے کاشتکاروں کی استعداد کار میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قومی معیشت کی ترقی میں بہتر کردار ادا کر سکیں۔ریشم کا استعمال پاکستان میں ایک کاٹیج انڈسٹری کے طور پر کیا جاتا رہا ہے تاہم تربیت اور تحقیق کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے ریشم کی صنعت نے گزشتہ چند سالوں کے دوران قابل ذکر ترقی نہیں دکھائی ہے۔ اگر حکومت ان کی استعداد کار میں اضافے کے لیے اقدامات کرے تو ریشم کے کسان بہتر طریقے سے ریشم کی پیداوار میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔پنجاب کے محکمہ جنگلات کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فاروق بھٹی نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ سیری کلچر کو اس کی صلاحیت کے مطابق تلاش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ریشم کے زیادہ تر کسان کوکون کی پیداوار کے لیے پرانے روایتی طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ہم نے ریشم کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے موثر اور نتیجہ خیز پالیسیاں وضع نہیں کیں۔ تاہم 2007 میں خیبرپختونخوا حکومت نے قیادت کی اور اس کی ریشم کی پیداوار کو فروغ دیا۔

ریشم کی زراعت میں تقریبا 670,000 خاندانوں کے لیے آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ریشم کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم سالانہ 67 ارب روپے کا ریشم درآمد کرتے ہیں۔فاروق بھٹی نے کہا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ریشم کی اہم درآمد کنندہ ہے۔ ہم چین، وسطی ایشیا ، بھارت، جاپان اور دیگر ریاستوں سے براہ راست یا بالواسطہ ریشم خریدتے ہیںاور ہم یہ 67 ارب روپے بچا سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 1947 میں اپنے قیام کے بعد سے ریشم کی زراعت کو کاٹیج انڈسٹری کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم یہ صنعت 1970 کی دہائی سے زوال کا شکار ہے۔ 2010 کے بعد ہم نے اس کی بحالی پر کام شروع کیا۔انہوںنے بتایا کہ چھانگا مانگا میں ریشم کی پیداوار کے لیے تقریبا 4000 تربیت یافتہ خاندان موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ جنگلات ان خاندانوں کو ریشم کے کاروبار سے منسلک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ محکمہ جنگلات ان خاندانوں کو کوکون کی پیداوار کے لیے ریشم کے انڈے فراہم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ سال میں دو بار ریشم کی پیداوار کی جا سکتی ہے۔ فروری تا اپریل اور ستمبر سے نومبر اس کے دو موسم ہیں۔ ان دو موسموں کے دوران ایک خاندان آسانی سے سالانہ 150 کلو گرام ریشم بنا سکتا ہے۔

محکمہ جنگلات ریشم کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے کسانوں کو ریشم کے بیج دیتا ہے۔فاروق بھٹی نے کہا کہ تحقیقی نقطہ نظر سے پاکستان دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے اور جہاں تک سیری کلچر کا تعلق ہے ہم نے اس میدان میں کوئی تحقیق نہیں کی ہے۔ مختصر مدت میں ہم بیج درآمد کر سکتے ہیں لیکن طویل مدت میںہمیں بیج کی پیداوار کے لحاظ سے خود کفالت کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے اس لیے ہمیں درآمدات پر اپنا انحصار کم کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کو ریشم کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے لیے سیری کلچر میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے محققین کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت ہے۔ محققین کو ایسے اقدامات کو ڈیزائن کرنا چاہیے جو انسانی ترقی کو فروغ دیں اور ہمارے ریشم کی پیداوار میں اضافہ کریں، یہ دونوں چیزیں طویل مدت میںہماری مارکیٹ کو فائدہ پہنچائیں گی۔فاروق بھٹی نے بتایا کہ اگر حکومت اعلی معیار کے انڈے درآمد کرکے، سستی بجلی فراہم کرکے اور اپنی استعداد کار میں اضافہ کرکے کسانوں کی مدد کرے تو کسان زیادہ اعلی معیار کا ریشم پیدا کرسکتے ہیں اور صنعت میں زیادہ اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ محکمہ جنگلات نے ریشم کی زراعت کو فروغ دیا ہے لیکن ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی