آئی این پی ویلتھ پی کے

رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں زرعی اور دیگر کیمیائی گروپوں کی درآمدات میں 35 فیصد کمی

۲۱ مارچ، ۲۰۲۳

رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ جولائی تا دسمبرکے دوران زرعی اور دیگر کیمیائی گروپوں کی درآمدات میں 35 فیصد کمی، درآمدی مالیت 5.17 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی،دواوں کی مصنوعات کی درآمد میں 81 فیصد کی نمایاں کمی ،تیار شدہ کھاد کی درآمدات میں 31 فیصد اضافہ،ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے کیڑے مار ادویات کی درآمد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ جولائی تا دسمبرکے دوران زرعی اور دیگر کیمیائی گروپوں کی درآمدات میں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 35 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جو مقامی زرعی پیداواری صلاحیت اور خوراک کی حفاظت پر ممکنہ طور پر نقصان دہ اثر ڈال سکتی ہے۔ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران زرعی اور دیگر کیمیائی گروپوں کی کل درآمدی مالیت 5.17 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی جو کہ اسی عرصے کے 7.93 بلین ڈالر سے نمایاں کمی ہے۔ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران زرعی اور دیگر کیمیائی گروپوں کی درآمدات 2.54 بلین ڈالر تھیںجو پچھلے مالی سال کی اسی سہ ماہی میں 4.51 بلین ڈالر کے مقابلے میں 44 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری سہ ماہی میں درآمدی قیمت پہلی سہ ماہی کے 2.63 ملین ڈالر سے 4فیصدکم تھی۔

مالی سال 23 کی دوسری سہ ماہی کے دوران زرعی اور دیگر کیمیائی گروپوں کے تمام ذیلی شعبوں بشمول کیڑے مار ادویات، ادویاتی مصنوعات اور پلاسٹک مواد کی درآمدات میں کمی واقع ہوئی۔خاص طور پردواوں کی مصنوعات کی درآمد میں 81 فیصد کی نمایاں کمی آئی، اس کے بعد پلاسٹک کے مواد میں 19 فیصد اور کیڑے مار ادویات کی درآمد میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔دوسری طرف تیار شدہ کھاد کی درآمدات میں 31 فیصد اضافہ ہواجس کی مالیت مالی سال 23 کی دوسری سہ ماہی کے دوران 351 ملین ڈالر ریکارڈ کی گئی جبکہ مالی سال 22 کی اسی مدت کے دوران 267 ملین ڈالر تھی۔مالی سال 22 کی اسی مدت کے مقابلے میں طبی مصنوعات کی درآمدی قدر میں 1.58 بلین ڈالرکا نمایاں فرق دیکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق دواوں کی مصنوعات کی درآمدات میں اس تیزی سے کمی کو پاکستانی شہریوں کے لیے کووِڈ 19 کی ویکسینیشن کے عمل کی تکمیل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ تمام کھادیں 0فیصدکسٹم ڈیوٹی پر درآمد کی جارہی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کے تحت ڈی اے پی ڈی امونیم فاسفیٹ بھی چین سے درآمد کی جارہی ہے۔فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ پاکستان میں ڈی اے پی کا واحد پروڈیوسر ہے۔ ایف ایف بی ایل نے حال ہی میں ایک تجویز پیش کی ہے جس میں ان پٹ مرحلے پر جنرل سیلز ٹیکس سے استثنی یا ڈی اے پی کھاد کی درآمد کے مرحلے پر جی ایس ٹی یا ڈیوٹی کے نفاذ کی درخواست کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درآمدی ڈی اے پی کی بین الاقوامی قیمتیں گر گئی ہیں جس کی وجہ سے ایف ایف بی ایل ایف ایف سی درآمدی برابری کی قیمتوں پر ڈی اے پی فروخت کرنے پر مجبور ہے۔

ایسے حالات میں درآمدی ڈی اے پی پر جی ایس ٹی کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکتا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے کیڑے مار ادویات کی درآمد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں چاول، آم، کھٹی پھل، سبزیاں، مکئی، سورج مکھی اور دیگر اہم فصلوں کے لیے مناسب کیڑے مار ادویات کی عدم دستیابی ہوئی ہے جو کہ غذائی تحفظ اور زرمبادلہ کمانے کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہیں۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ایسی اجناس کے لیے ایل سی کھولنے میں تاخیر سے قومی پیداواری صلاحیت اور ان فصلوں کے زیر اثر رقبہ پر منفی اثر پڑ سکتا ہے جس سے مقامی منڈیوں میں غذائی قلت اور شدید مہنگائی ہو سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھنے اور فصل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کیمیکلز اور کھادوں کی درآمد ضروری ہے۔ ان درآمدات کے بغیرکسانوں کو آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی فصلیں پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ سکتی ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی