- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
رواںمالی سال کے جولائی تا فروری کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل8.28 فیصد کمی کے ساتھ 11,876 ملین ڈالر رہا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 12,948 ملین ڈالر تھا،پاکستان توانائی کے لیے فوسل فیول پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے،ملک کی سرکلر اکانومی کو کئی چیلنجز کا سامنا ،پاکستان میں قابل تجدید توانائی، خاص طور پر شمسی اور ہوا کے لیے بھی نمایاں صلاحیت موجود ہے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق سرکلر اکانومی پاکستان کے معاشی اور ماحولیاتی چیلنجوں کا پائیدار حل پیش کر سکتی ہے لیکن اسے اہم رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں محدود آگاہی اور صلاحیت، ویسٹ مینجمنٹ کا ناکافی انفراسٹرکچراور معاون پالیسیوں کا فقدان شامل ہے۔پنجاب کے محکمہ تحفظ ماحولیات کی ڈپٹی ڈائریکٹر محترمہ عظمت ناز نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ سرکلر اکانومی ماحولیاتی انحطاط، وسائل کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے حل کے طور پر عالمی سطح پر رفتار حاصل کر رہی ہے۔سرکلر اکانومی اقتصادی ترقی اور ملازمتوں کی تخلیق کو فروغ دیتے ہوئے تیز رفتار شہری کاری سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے گی۔ یہ ری سائیکلنگ اور دوبارہ مینوفیکچرنگ جیسی حکمت عملیوں کے ذریعے وسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں رکھنے میں بھی مدد کرے گا۔ سرکلر اصولوں کو اپنانے سے فضلہ اور آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے، قدرتی وسائل کا تحفظ کیا جا سکتا ہے اور وسائل کی کارکردگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس میں زراعت، ٹیکسٹائل اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں صلاحیت موجود ہے۔اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی معیشت میں زراعت کا شعبہ 22.7 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور 37.4 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے۔عظمت ناز نے کہا کہ روایتی کاشتکاری کے طریقوں سے مٹی کی تنزلی، پانی کی کمی اور حیاتیاتی تنوع میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے اس شعبے کی پائیداری کو خطرہ ہے۔زرعی شعبے میں سرکلر معیشتیں زمین کے پائیدار استعمال کو فروغ دیتی ہیں اور نامیاتی کاشتکاری اور زرعی جنگلات کے ذریعے فضلہ کو کم کرتی ہیں۔ نامیاتی کاشتکاری مٹی کی صحت اور حیاتیاتی تنوع کو بڑھانے کے لیے قدرتی طریقے استعمال کرتی ہے۔ زرعی جنگلات زمین کی زرخیزی کو بڑھانے اور پانی کے تحفظ کے لیے درختوں کو کاشتکاری کے نظام میں ضم کرتا ہے۔صنعتی شعبے میںٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستان کی معیشت میںبڑا حصہ ڈالتا ہے اور اس کی برآمدات کا 60 فیصد حصہ ہے۔ اس صنعت کو اہم ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ویلتھ پاک کی تحقیق کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات 11.24 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں سرکلر اکانومیاں فضلہ اور آلودگی کو کم کرسکتی ہیں۔توانائی کا شعبہ ایک اور شعبہ ہے جہاں سرکلر اکانومی پاکستان کے لیے اہم مواقع فراہم کرتی ہے۔پاکستان توانائی کے لیے فوسل فیول پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
پاکستان بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 23 کے جولائی تا فروری کے دوران پیٹرولیم گروپ کا درآمدی بل 11,876 ملین ڈالر رہا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 12,948 ملین ڈالر تھا۔ یہ 8.28 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔تاہمپاکستان میں قابل تجدید توانائی، خاص طور پر شمسی اور ہوا کے لیے بھی نمایاں صلاحیت موجود ہے۔ یہ توانائی کی حفاظت کو بڑھا سکتا ہے اور غیر ملکی ذخائر کو بچانے میں مدد کے لیے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج اور پیٹرولیم گروپ کے درآمدی بل کو کم کر سکتا ہے۔اپنی بڑی صلاحیت کے باوجود، پاکستان کی سرکلر اکانومی کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔عظمت نازنے کہا کہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومت، نجی شعبے، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے درمیان باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو 2023 سے 2030 کے درمیان 348 بلین یا مجموعی جی ڈی پی کا 10.7 فیصدکی کل سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی اور ترقیاتی چیلنجوں سے جامع طور پر نمٹا جا سکے۔ یہ سرمایہ کاری پائیدار ترقی اور ملک پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اہم ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی