- ہمارے متعلق
-
- |
-
- |
-
سیلاب سے ملک بھر میں 19ہزار سکول تباہ،لاکھوں طلبہ کی تدریس رک گئی،تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ،5,500 سکولوں کو سیلاب زدگان کی پناہ گاہ بنادیاگیا، تینوں صوبوں میں 15یونیورسٹیاںبھی زیر آب،تعلیمی نظام درہم برہم ، سیلاب زدہ علاقوں میں طلبا کے لیے ٹیوشن فیس کی وصولی موخر۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب نے پاکستان میں 19,000 سکول تباہ کر دیے ہیں جنہیں ہزاروں بچوں کے سکول چھوڑنے سے روکنے کے لیے جنگی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے مختلف سکولوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ ملک میںموسلا دھار بارش کا تخمینہ معمول کی سطح سے 67 فیصد زیادہ ہے۔ مکانات کی تباہی کے باعث 5,500 سکولوں کو سیلاب زدگان کی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک بھر میں مزید عارضی تعلیمی مراکز قائم کرے تاکہ طلبہ کے قیمتی وقت کو بچایا جا سکے۔ وزارت تعلیم کے ایک عہدیدار نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ سیلاب نے تعلیمی انفراسٹرکچر کو بہت بری طرح تباہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی محکمہ تعلیم کے مطابق سیلاب سے سکولوں کی تباہی سے ملک میں تقریبا 670,000 طلبا متاثر ہوئے سندھ سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ صوبے میں تقریبا 16,000 سکول مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں 600 اور پنجاب میں 1180 سکولوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 1090 تعلیمی اداروں کو سیلاب سے نقصان پہنچا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں کئی سکول اب بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں جن کو بنایا نہیں جا سکا۔ ہزاروں طلباجو تعلیمی سال کے آغاز کی تیاری کر رہے تھے نے اپنے اسکولوں کو کتابوں، بلیک بورڈز، کرسیاں اور میزیں پانی میں تیرتے ہوئے پایا۔
ملک کے تینوں صوبوں میں 15یونیورسٹیاں اب بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔ترجمان نے کہاکہ حالیہ سیلاب نے پاکستان کا تقریبا 40 فیصد زمینی حصہ ڈوب کر چھوڑ دیا اور تقریبا 33 ملین افراد بے گھر ہوئے۔ ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع اور بھاری معاشی نقصان کے علاوہ سیلاب نے ملک کے نازک تعلیمی نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔تمام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کی طرف سے کئے گئے سروے کے مطابق مجموعی طور پر 1,121 کمرے، 264 واش رومز، 188 باونڈری والز، 24 امتحانی ہالز اور 20 دفاتر کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ضلع پشین میں 3,600 طلبا کے لیے 30 عارضی تعلیمی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ لسبیلہ میں 100 بچوں کے لیے ایک مرکزقائم کیا گیا ہے۔ 35,000 بچوں کے لیے تعلیمی سامان پہلے ہی سندھ اور پنجاب کو تفویض کیا جا چکا ہے۔یونیورسٹیوں نے کچھ تیز اقدامات کیے ہیں جن میں سیلاب زدہ علاقوں میں طلبا کے لیے ٹیوشن فیس کی وصولی کو موخر کرناہے لیکن یونیورسٹیوں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے کر اور مستقبل میں اس طرح کے سیلاب سے بچنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی میں بڑا کردار ادا کریں۔ ایک بیان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین مختار احمد نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طلبا سے واجبات کی وصولی کو فوری طور پر روک دیا گیا اور کچھ وقت کے لیے موخر کر دیا گیا۔ انہوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماڈلز پر عمل کرنے اور جامع تیز رفتار تعلیمی پروگرام تیار کرنے اور لاگو کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی