آئی این پی ویلتھ پی کے

تھر کے کوئلے کے دو منصوبوں سے 2600 میگاواٹ بجلی پیدا جا ر ی

۸ اپریل، ۲۰۲۳

تھر کے کوئلے کے دو منصوبوں سے 2600 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ تھر سے نکالا جانے والا کوئلہ درآمدی کوئلے کے مقابلے میں بہت سستا ہے، فی یونٹ پیداواری لاگت پانچ روپے ہے،تھر میں کوئلے کے 175 ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں، سڑکوں کے نیٹ ورک نے تھر کے منظر نامے اور مقامی لوگوں کے لیے سماجی و اقتصادی حالات کو تبدیل کر دیا ہے،سندھ کے باقی حصوں سے لوگ تھر کا رخ کر رہے ہیں۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت منصوبے توانائی اور سڑک کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا کر پاکستان کو اقتصادی استحکام کی طرف لے جا رہے ہیں۔ وہ مقامی کمیونٹیز کو غربت سے نکال کر اور ان کے سماجی و اقتصادی حالات کو بہتر بنا کر بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ سی پیک کے تحت تھر میں کوئلے کی کان کنی کی کھدائی کے منصوبے جاری ہیںجو کوئلے کے ذخائر کے پیش نظر دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھر صوبہ سندھ میں کوئلے کے 175 ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ تھر کا شمار پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ تھر فاونڈیشن کے سابق جنرل منیجر نصیر میمن نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تھر کول پاور پراجیکٹس کی ترقی سے تھر کی ڈائنامکس تیزی سے بدل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کے نیٹ ورک نے تھر کے منظر نامے اور مقامی لوگوں کے لیے سماجی و اقتصادی حالات کو تبدیل کر دیا ہے جن کے پاس اب روزگار کے بہتر مواقع، پینے کاپانی اور صحت کی سہولیات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلولر نیٹ ورک کی سہولت کے متعارف ہونے سے مقامی لوگوں کو مزید فائدہ پہنچا ہے۔

کوئلے کی کان کنی میں مدد کے لیے تھر میں مختلف صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ تھر کے لوگ پہلے دو دن میں حیدرآباد اور کراچی پہنچتے تھے لیکن اب وہ تھر میں دستیاب جدید ٹرانسپورٹیشن سروسز سے فائدہ اٹھا کر ان شہروں کا سفر کر کے ایک ہی دن میں واپس آ سکتے ہیں۔ نصیر میمن نے کہا کہ ایکسپلوریشن کے دو بلاکس کام کر رہے ہیںاور مختلف غیر سرکاری تنظیمیں علاقے میں بنیادی صحت اور بنیادی تعلیم پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے کوئلے کے منصوبوں نے علاقے میں دقیانوسی تصورات کو بھی توڑا ہے کیونکہ بہت سی خواتین کوئلے کی کانوں میں کام کر رہی ہیں جو بھاری ٹرک اور ڈمپر چلاتی ہیں۔ نصیر میمن نے کہا کہ تھر میں ماحولیاتی مسائل پر تشویش کا اظہار کرنا قبل از وقت ہے کیونکہ اس وقت صرف دو کول بلاک کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر ان بلاکس کی تعداد 15 تک پہنچ جائے تو یہ ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔ تھر کے کوئلے کے دو منصوبوں سے تقریبا 2600 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ تھر سے نکالا جانے والا کوئلہ جو درآمدی کوئلے کے مقابلے میں بہت سستا ہے، پاکستان کے لیے سستی بجلی پیدا کرتا ہے اور اس کی فی یونٹ لاگت تقریبا پانچ روپے ہے۔ تھر سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن خالد کمبھار نے بتایا کہ جب سے کوئلے سے بجلی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں تب سے سندھ کے باقی حصوں سے لوگ تھر کا رخ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے مقامی کمیونٹی کو مزید مراعات فراہم کرنے کے لیے ایک پالیسی میکانزم کی ضرورت ہے۔ کمبھار نے کہا کہ پرائمری ہیلتھ یونٹس، ہینڈ پمپس اور صحت کی بنیادی سہولیات محدود پیمانے پر فراہم کی جا رہی ہیں جنہیں مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور حکام کو صحرائی باشندوں کے لیے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مٹھی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے اوبھائیو جونیجو نے کہا کہ حکومت کوترقیاتی عمل میں تھر کے عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دو بڑی سڑکیں ایک کراچی سے اور دوسری نوکوٹ سے تھر کو جوڑتی ہیں جو اسلام کوٹ پر ختم ہوتی ہیں۔ تاہم تھر میں 2400 دیہات ہیں اس لیے آنے والے سالوں میں علاقے میں ہونے والی اہم پیشرفت کے پیش نظر سڑکوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگ ہمیشہ کے لیے بارش پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔ پینے اور زراعت کے مقاصد کے لیے نئی نہروں اور پائپ لائنوں کا نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جونیجو نے کہا کہ یہ علاقے میں بہتر معاش کے لیے بہتر مواقع فراہم کرے گا۔ بلاک ٹوکوئلے کی کان میں ڈمپر چلانے والی مقامی رہائشی روپا نے بتایا کہ اس کے بچے ایک اسکول میں داخل ہیں اور وہ کوئلے کی کانوں میں دستیاب سہولیات سے فائدہ اٹھا کر اپنے خاندان کی کفالت کر رہی ہے۔ ڈرائیونگ سیکھنے میں مہینوں لگاکر اب وہ آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں آسانی سے ڈمپر چلا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ ان کے اور صحرائے تھر کے بہت سے دوسرے خاندانوں کے لیے ایک نعمت ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی